سپریم کورٹ نے چیئرمین عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ سے روکنے کے لیے عبوری حکم جاری کرنے کی حکومت کی درخواست ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر سابق وزیر اعظم سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا اور اس کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی تھی۔ عمران خان نے اب جمعہ کے روز لاہور سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔
بدھ کے روز سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور حساس اداوں کی رپورٹس کا جائزہ لیا ہے پولیس آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس پر ہی سب اداروں کا انحصار ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی، عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا، عمران خان کے 6 بجکر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا،عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بجکر 54 منٹ پر کیا، پی ٹی آئی نے سرینگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی۔
عامر رحمٰن نے کہا کہ عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا، عمران خان کے بعد شیریں مزاری،فواد چودھری، صداقت عباسی نے بھی ڈی چوک کی کال دی، عثمان ڈار ،شہباز گل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک کی کال دی، عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے۔
عامر رحمن نے اپنے دلائل میں کہا کہ 26 مئی کو صبح جناح ایونیو پر 6 بجے ریلی ختم کی گئی، عمران خان مختص جگہ سے گزر کر بلیو ایریا آئے اور ریلی ختم کی، مختص مقام ایچ نائن سے چار کلومیٹر آگے آکر عمران خان نے ریلی ختم کی۔
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے دی تھی، عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا، عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے، عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے، عمران خان آکر عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابر اعوان فیصل چودھری نے عمران خان کی طرف یقین دہانی کروائی تھی، یقین دہانی کرائی گی تھی سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ فی الحال توہین عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے، عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لیں گے توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔
اس دوران سپریم کورٹ نے عمران خان، بابر اعوان اور فیصل چودھری کو بھی نوٹس جاری کر تے ہوئے تحریری جواب طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے دونوں رہنماؤں کو نوٹس عمران خان کی جانب سے 25 مئی کو یقین دہانی پر جاری کیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لینا ہے کیا یقین دہانی ڈی چوک نہ آنے کی کرائی گئی تھی یا نہیں، حکومتی الزامات پر بھی عمران خان کا موقف سننا چاہتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کردی، اس موقع پر چیف جسٹسں نے کہا کہ عمران خان کے جواب کا جائزہ لے کر طے کریں گے کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہے نہیں۔
style=”display:none;”>