سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے گن اینڈ کنٹری کلب کے آڈٹ کا عمل جلد مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سی ڈی اے کی جانب سے گن اینڈ کنٹری کلب اسلام آباد کو اربوں روپے کی اراضی ارزاں قیمت پر الاٹ کرنے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے 2 دسمبر 2019 سے جون 2022 تک کلب کا آڈٹ مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اتھارٹی کلب اور سی ڈی اے کے درمیان زمین کی لیز کے معاملے کا فیصلہ کرے۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں کلب کے ہتھیاروں سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی جارہی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ کمیٹی کلب کا آڈٹ کرانے سے گریزاں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ، جو کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، کے ایک اجلاس میں چائے پر 4 لاکھ 16 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے اجلاسوں کے دوران کھانے اور چائے کے اخراجات ہم خود برداشت کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معلوم ہوا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی قومی خزانے سے اجلاسوں میں چائے اور بسکٹ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کلب کی کمیٹی کے رکن ایڈووکیٹ نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ کلب کا انٹرنل آڈٹ ہر سال کیا جاتا ہے، فیصل سخی بٹ، دانیال عزیز اور خرم خان کی گزشتہ ادوار میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوئیں۔
کلب کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ کمیٹی سی ڈی اے کو 1880 ملین روپے کی ادائیگیاں کرنا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ وہ قومی اثاثوں کی حفاظت چاہتے ہیں، حکومت جلد قانون سازی کرے اور کلب کے انتظامی امور کو اپنے ہاتھ میں لے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ کا ایک رکن کیس سننا نہیں چاہتا اور سماعت اگلے سال فروری تک ملتوی کردی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں گن اینڈ کنٹری کلب اسلام آباد کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
کلب اور اس کے احاطے میں شادی ہال کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کلب کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ جس پر کلب قائم کیا گیا ہے وہ زمین پاکستان سپورٹس بورڈ کی ہے اور لوگوں نے اپنی ذمہ داری پر کلب کی ممبر شپ لی، چیف جسٹس نے کہا کہ کلب کی تعمیر کی کوئی قانونی منظوری نہیں ہے۔ .
عدالت نے کلب کے قیام کے لیے پرویز مشرف کے دور میں جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔
style=”display:none;”>