سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے توہین عدالت کیس کی سماعت کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سر براہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی۔ عدالت نے وزارت داخلہ کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد پر عمران خان سے جواب طلب کرلیا ہے۔ سماعت کے دوران مختلف مواقع پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو تحمل سے رہنا ہے تاکہ مقدمے میں سوچنے کے عمل پر جذباتیت غالب نہ آ ٸے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاملے میں کسی قسم کی عجلت کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ وزارت داخلہ چاہے تو عمران خان اور ان کے وکلاء کی طرف سے پیش کی گئے جوابات پر موقف پیش کر سکتی ہے۔ دوران سماعت ایڈوکیٹ سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ کال ڈیٹا ریکارڈ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی بابر اعوان سے بات چیت ہوئی یا نہیں۔
کال ڈیٹا ریکارڈ سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ عمران خان کا فون جیمرز کی وجہ سے بند تھا یا چل رہا تھا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ وزرات داخلہ نے متفرق جواب کے ساتھ اضافی مواد جمع کرایا ہے۔ اضافی مواد میں اسکرین شاٹس اور ٹویٹس سمیت دیگر مواد شامل ہے۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کے دوران پرامن رہنے کی ہدایت کی جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل ایڈوکیٹ سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی کہ عمران خان سے کہہ دیں جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں، ہم توقع کرتے ہیں کہ عمران خان خان قانون کی پاسداری کریں گے۔
style=”display:none;”>