صدر مملکت نے وزیراعظم کے نام ایک خط میں صحافیوں اور میڈیا پرسن کی ہراسیت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خط میں صدر مملکت نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات عدم برداشت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے جمہوریت کے مستقبل اور آزادی ِاظہار ِرائے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل 19 اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ عارف علوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خوف پیدا کرنے کے علاوہ ایسے واقعات بین الاقوامی توجہ میں آتے ہیں اور ملک کا تاثر داغدار کرتے ہیں ۔
صدر مملکت نے پاکستان فریڈم آف پریس انڈیکس 2022 میں پاکستان کی 157 ویں پوزیشن پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے اپنی رپورٹوں میں صحافیوں کو ہراساں کرنے ، دھمکیاں دینے اور جسمانی تشدد کو پاکستان کی مایوس کن پوزیشن کی بنیادی وجوہات قرار دیا ہے۔
صدر مملکت نے خط میں صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹوں کا بھی حوالہ دیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1992 سے 2022 تک 96 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔
صدر مملکت نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ ریاست کے طاقتور عناصر کے خلاف اختلاف رائے اور تنقید دبانے کے لئے صحافیوں کو بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔ مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے ایک مصروف علاقے سے دن دیہاڑے اغوا کیا گیا۔ اسد علی طور اور ابصار عالم کو نامعلوم افراد نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ لاہور میں کئی عینی شاہدین کی موجودگی میں ایاز امیر پر نامعلوم افراد نے سڑک پر حملہ کیا۔ سمیع ابراہیم، ارشد شریف، صابر شاکر، عمران ریاض خان اور معید پیرزادہ کے خلاف مختلف تھانوں میں متعدد ایف آئی آر درج کرائی گئیں ۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آزاد رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کو دہشت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
پچھلی حکومتوں کے اقدامات یا بے عملی کو ایسی خلاف ورزیوں کو دہرانے کے لیے وجہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے ۔ یہ موازنہ ملک کو ترقی اور مثبت سمت میں لے جانے کے بجائے صحافیوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرنے کا جواز بن جائے گاآئین کے آرٹیکل 41 کے مطابق صدر کو تمام شہریوں کے لیے آزادی اظہار اور منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو ممکن بنانا چاہیے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں دانشوروں اورصحافیوں پر ظلم و ستم نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے صحافیوں اور میڈیا پرسن کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
سیاست دان بھی صحافیوں کو نامعلوم اور دیگر عناصر کے غیر قانونی اقدامات سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ آئین کے آرٹیکل 46 کے تحت وزیر اعظم اس سلسلے میں کیے گئے اقدامات سے صدر کو آگاہ رکھیں ۔
style=”display:none;”>