مجھ کو گہرائی میں مٹی کی اتر جانا ہے
زندگی باندھ لے سامان سفر جانا ہے
گھر کی دہلیز پہ روشن ہیں وہ بجھتی آنکھیں
مجھ کو مت روک مجھے لوٹ کے گھر جانا ہے
میں وہ میلے میں بھٹکتا ہوا اک بچہ ہوں
جس کے ماں باپ کو روتے ہوئے مر جانا ہے
زندگی تاش کے پتوں کی طرح ہے میری
اور پتوں کو بہرحال بکھر جانا ہے
ایک بے نام سے رشتے کی تمنا لے کر
اس کبوتر کو کسی چھت پہ اتر جانا ہے
style=”display:none;”>