آج جب پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنے عہدے کی ذمہ داریاں نئے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو سونپ رہے ہیں تواس حوالے سے ایک دلچسپ موضوع یہ بھی زیرِبحث ہے کہ “علامتی طور پر منتقل ہونے والی جنرل کی چھڑی یا ‘بیٹن’ کا تصور کب اور کہاں سے آیا۔ در حقیقت، فوجی افسر کےکاندھے پر لگے ستارے ہوں یا دستانے میں چھپے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں دبی یہ خاص فوجی چھڑی، سب کی سب علامت ہیں، بے پناہ طاقت اور اختیار کی۔
کہتے ہیں کہ یہ چھڑی اس وقت بھی اہم ہوتی ہے جب کہ مکمل ہو اور اس وقت بھی جب یہ حادثاتی طور پر کسی وجہ سے ٹوٹ جائے۔ جی ہاں، “چھڑی، تو پھر چھڑی ہوتی ہے”۔
شوکت قادر صاحب جو کہ خود بھی ایک صاحبِ چھڑی فوجی افسر رہ چکے ہیں، اقتدار کی اس چھڑی کاایک دلچسپ واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ، ایک بار ایک فوجی افسر نے اپنی بیوی کے اغواکار کی پٹائی کرتے ہوئے اس کے کندھے پر اپنی چھڑی توڑ ڈالی۔ جب اس افسر کے جانے کا وقت آیا اور اسے یہ عہدہ دوسرے افسر کو سونپنا پڑا تو اس نے وہی ٹوٹی ہوئی چھڑی ان کی حوالے کردی۔ یہ کوئی فرضی واقعہ نہیں ہے۔ شوکت قادرصاحب نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹوٹی چھڑی کا یہ واقعہ کوئی سنی سنائی بات نہیں، اس کا ذکر فوج کے ریکارڈ پربھی موجود ہے۔ یہ چھڑی پاکستانی فوج میں بریگیڈیئر اور اس سے اوپر کے عہدے میں ترقی پانے والے ہر افسر کو ملتی ہے۔
‘بیٹن‘ کہلانے والی یہ چھڑی کیا ہے، کہاں سے آئی ہے اوراسے کون لایا ہے؟ یہ ایک معقول سوال ہے۔۔۔
ہم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں فوجی معاملات و روایات سے شاید اتنی دلچسپی نہ ہو، لیکن وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایسے بیشمار جرنیل گزرے ہیں جنہوں نے ایسی قربانیاں دیں اورکارہائے نمایاں انجام دیئےکہ لوگ آج بھی ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ لیکن ان ہی میں چند ایسے بھی ہیں کہ جو انگنت بیجا معصوم جانوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار قرار پائے۔ جس کی وجہ سے انہیں آج بھی اور رہتی دنیا تک برے نام سے ہی یاد کیا جاتا رہے گا۔ چھڑی ان سب کے ہاتھوں میں ایک جیسی ہی ہوا کرتی تھی لیکن، اس چھڑی کے ساتھ انھیں ملنے والے اختیار کے ‘استعمال’ نے انہیں ایک دوسرے سے مختلف کردیا۔
رومن حکمرانوں کے مختلف مجسموں کو دیکھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ حکمران اپنے اقتدار اور حاکمیت کے اظہار کے لئے علامتی طور پراپنے ہاتھ میں ایک عصاء، یا “چھڑی” تھامے رہتے تھے۔
فوجی اقتدار کی علامت کے طور پر اسکے ابتدائی استعمال کے شواہد روم میں ملتے ہیں، جہاں رومن حکمرانوں کے نائیب یا انکے فوجی گورنر، اپنے اختیار کی سرکاری علامت کے طور پر سفید رنگ کا ایک عصاء استعمال کیا کرتے تھے۔ بعد میں فرانسیسی حکمرانوں، اور خاص طور پر نیپولین نے، اس رومن روائیت کو اپنا لیا اوراپنے جرنیلوں کے لئے ہیرے جواہرات سے آراستہ “بیٹن” یا چھڑیوں کے استعمال کی روائیت ڈالی۔
بیٹن ایک فرانسیسی لفظ ہے جس کے معنی ہیں چھڑی یا عصاء ۔ اسطرح دیکھا جائےتو اس فوجی چھڑی، بیٹن کی روائیت کا آغاز فرانس سے ہوا۔ پہلے یہ چھڑیاں اسلئے بھی اہم اور قیمتی ہوتی تھیں کہ یہ ہیرے جواہرات سے آراستہ ہوتی تھیں، لیکن آہستہ آہستہ لعل و جواہر تو ان چھڑیوں سے غائیب ہوگئے، لیکن ‘قوت اور اقتدار’ کی علامت کے طور پر سیدھی سادی بید کی چھڑی کے استعمال کی روایئت بدستور برقرار رہی۔
پاکستان کے ایک دفاعی تجزیہ کار اورسابق بریگیڈیئر شوکت قادرنے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ برصغیر میں فوجی کمان کی یہ چھڑی انگریز اپنے ساتھ لائے تھے اور جبھی سے یہ مقامی روایت کا حصہ چلی آ رہی ہے۔
بیٹن بنانے کے لئے سنگاپور سے خصوصی طور پر منگوائی گئی بید ’ملاکا کین‘ استعمال کی جاتی ہے۔ ون سٹار افسر، یعنی بریگیڈیئر سے اوپر کے افسران کو ملنے والی یہ چھڑی ہر نئے آنے والے افسر کو پرانا افسر سونپتا ہے اور خودایک نئی چھڑی تھامے نئے عہدے پر ترقی کر جاتا ہے۔