وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو سرکاری عہدیداروں کی بھرتی، تقرر اور تعیناتیوں سمیت ترقیوں سے قبل ان کی سکریننگ کی ذمہ داری دیئے جانے کے اقدام کو سوشل میڈیا پر کڑی نقطہ چینی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کے اس فیصلے کو خود ان کی اپنی پارٹی میں بھی ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اگر سول افسروں کی چھان بین کا فریضہ آئی ایس آئی کی ذمہ داریوں میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر آئی ایس آئی کو بھی سویلین انتظامیہ کے زیر سپرد اور پارلیمنٹ کو جواب دہ ہونا چاہئے۔
کئی لوگ یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو اور سول سپریمیسی کا نعرہ اس حکمنامے کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کے روز ایک حکمنامے کے ذریعے آئی ایس آئی کو سرکاری عہدیداروں کی بھرتی، تقرر اور تعیناتیوں سمیت ترقیوں سے قبل ان کی اسکریننگ کی ذمہ داری سونپی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے اس فیصلے سے ایک ایسی روایت کو قانونی تحفظ دیا ہے جو پہلے سے موجود تھی لیکن اسے باقاعدہ طور پر پروٹوکول کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے مطابق ’سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن 25 کی ذیلی دفعہ نمبر ایک کے ذریعے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم نے آئی ایس آئی کو تمام سرکاری عہدیداران (آفیسر کیٹیگری) کی تصدیق اور اسکریننگ کے لیے اسپیشل ویٹنگ ایجنسی (ایس وی اے) کا درجہ دے دیا ہے۔
آئی ایس آئی کو ایس وی اے کے طور پر نوٹیفائی کرنے کی ہدایت 06 مئی 2022 کو وزیر اعظم آفس سے جاری کی گئی۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری عہدیداروں کو اہم عہدوں پر تعینات کیے جانے سے پہلے آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ان کے بارے میں اپنی رپورٹس بھیجتے ہیں۔
بیوروکریٹس کی ترقی کے وقت رپورٹس خاص طور پر سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کو بھیجی جاتی ہیں، یہ عمل جاری ہے حالانکہ اعلیٰ عدالتوں نے ماضی میں کچھ معاملات میں ایسی انٹیلی جنس رپورٹس کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ایسی کوئی قانونی شق نہیں جو سرکاری ملازمین کے لیے ایجنسی کی اسکریننگ کو لازمی قرار دے۔
تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سابق سیکریٹری نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ اگرچہ وزیراعظم کے پاس بیوروکریسی کے لیے قوانین بنانے یا ان میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے لیکن بہتر ہوتا کہ اگر سول بیوروکریسی آئی ایس آئی کو جانچ کے عمل کا باضابطہ چارج دینا چاہتی تھی تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ’تقرر، ترقی اور تبادلے (اے پی ٹی) کے قواعد‘ میں ترمیم کے لیے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کرتی۔
انہوں نے کہا کہ قواعد میں ترمیم نہ کیے جانے تک محض ایک نوٹیفکیشن آئی ایس آئی کی رپورٹ کو قانونی حیثیت نہیں دے گا اور اسے عدالتی جانچ پڑتال کے دوران ایک جائز دستاویز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
عہدیدار نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے ذریعے سرکاری عہدیداروں کے ابتدائی تقرر میں آئی ایس آئی کی جانب سے جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔
style=”display:none;”>