صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022 اور الیکشن ترمیمی بل 2022 پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو دوبارہ غور اور تفصیلی جائزہ کے لیے وزیر اعظم کو واپس کر دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ان قوانین کی منظوری کے وقت آئین کے آرٹیکل 46 کی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ اس بل کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل صدر مملکت کو اس قانون سازی سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
آئین کا آرٹیکل 46 کہتا ہے کہ “وزیراعظم صدر کوقانون سازی کے بارے میں باخبر رکھے گا۔
صدر نے مزید لکھا کہ ان ترامیم کو 26 مئی 2022 کو قومی اسمبلی اور 27 مئی 2022 کو سینیٹ نے جلد بازی میں اور مناسب تدبر کے بغیر منظور کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے پر دور رس اثرات مرتب کرنے والی قانون سازی پر قانونی برادری اور سول سوسائٹی کی مشاورت سے تفصیل سے بات کی جانی چاہیے تھی۔
انہوں نے لکھا کہ اس ترمیم کے ذریعے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر ڈال دی ہے جس کی وجہ سے نیب قانون (سی آر پی سی) 1898 جیسا بن گیا ہے۔ اس سے پراسیکیوشن کے لیے ثابت کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس طرح بدعنوانی اور سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمات اور پاکستان میں احتساب کا عمل دفن ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ترمیم اسلامی فقہ کی روح کے بھی خلاف ہے جہاں خلیفہ ہزار عمر رضی اللہ عنہ سے ایک عام شہری نے ان سے اضافی چادر پر سوال اٹھایا تھا اور یہ ترقی یافتہ ممالک کے مختلف احتسابی قوانین کے بھی منافی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس ترمیم سے غیر قانونی اثاثوں کے حصول کے لیے منی ٹریل کا سراغ لگانا تقریباً ناممکن ہو جائے گا خاص طور پر جب جائیداد/اثاثہ جات/دولت کے ریکارڈ کو نہ تو ڈیجیٹائز کیا گیا ہو اور نہ ہی تفتیش کاروں کے ذریعے خاص طور پر بے نامی جائیدادوں کا پتہ لگایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مجوزہ ترامیم کو نافذ کیا گیا تو عدالتوں میں جاری میگا کرپشن کیسز بے معنی ہو جائیں گے۔ لہٰذا، مجوزہ ترمیم جس نے ملک میں گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لیے بدعنوانی اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے خاتمے کے لیے احتساب کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا چاہیے تھا، کو بے حیثیت ادارہ بنا دیا گیا ہے۔
الیکشن ترمیمی بل پارلیمنٹ کو واپس بھیجتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی جو اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے حصہ ڈالتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ مختلف وزرائے اعظم اور صدور کی جانب سے بیرون ملک مقیم ان سے مختلف وعدے کیے جا چکے ہیں لیکن انہیں ابھی تک ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔
style=”display:none;”>