اسلام آباد: پریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی انتخابات کے کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ’نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جا سکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جا سکتا۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ ’نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’بنیادی حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے۔‘
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔‘
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟‘ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’ہائیکورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’ہائیکورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے۔ نظر ثانی کیس میں آپ کا موقف ہے کہ دائرہ محدود نہیں۔ کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں؟‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟‘