قریباً روز عدالت لگتی ہے۔ عدالت کے اندر بھی اور عدالت کے باہر بھی ، مسئلہ ایک ہی ہے ۔۔۔ پنجاب کے الیکشن ، حکومت کا موقف ہے الیکشن اکتوبر سے پہلے ممکن نہیں ، عدالت کا حکم ہے پنجاب کے لئے 14 مئی ڈیڈ لائین ہے ورنہ آئین شکنی ہو جائے گی جس کے مضمرات ہوں گے۔۔
حکومت روز نئے جوش و ولولے کے ساتھ عدالت سے استدعا کرتی ہے کہ پارلیمانی فیصلوں پر عملدرآمد اور الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے فل کورٹ بنایا جائے ، عدالت ہر بار یہ درخواست مسترد کر دیتی ہے .
حکومت روز عدالت میں دبے لفظوں اور عدالت سے باہر کھلم کھلا، واشگاف نعروں کی صورت میں عدالت سے کہتی ہے کہ ہماری بات مان جائیں ورنہ پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہو رہا ہے، جواب میں عدالت کا پہلے دن سے ایک ہی موقف ہے کہ وہ صورت بھی پارلیمنٹ کو آئین شکنی کا مرتکب نہیں ہونے دے گی ، چیف جسٹس نے تو ایک تقریب میں یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت مرضی کے ججوں سے مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہے
آج ایک بار پھر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی، درخواست کا لب لباب یہ تھا کہ کیونکہ معاملہ بڑی آئینی اہمیت کا ہے اس لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ پیچیدہ مسائل اور قانون کے پائیدار حل کے لیے تمام ججز کی اجتماعی حکمت اوردانش ضروری ہے، ن لیگ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان حالات میں یہ مناسب نہیں کہ اس معاملے کی سماعت وہ 8 رکنی بینچ کرے جس کا انتخاب اور سربراہی چیف جسٹس خود کر رہے ہوں۔ ایسا تاثر خواہ بے بنیاد ہی ہو کہ ’بینچ چیف جسٹس کے خیالات سے بنا ہے‘ اس سے گریز کرنا چاہیے۔ اس لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے
ن لیگ کی درخواست پڑھ کے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ پی ڈی ایم اور پارلیمنٹ جو مشورہ عدالت کو دے رہی ہیں اس پر خود کیوں عمل نہیں کر رہی ہیں ۔۔۔ پارلیمنٹ کو عدالت کا تو فل بنچ چاہئے لیکن خود آدھی ادھوری پارلیمنٹ بل پر بل پاس کئے جا رہی ہے۔۔۔ آدھی ادھوری کا لفظ بھی پارلیمان کی توقیر کو ملحوظ خاطر ہو کر لکھا گیا ہے ورنہ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت اس وقت اسمبلی میں نہیں ہے ، سب سے بڑی صوبائی یعنی پنجاب کی اسمبلی اور خیبر پختون خوا میں الیکشن کے انتظار میں تالے پڑے ہیں ۔ نشستوں کے اعتبار سے قریباً پچاس فی صد قومی نمائندے اسمبلیوں میں موجود نہیں ۔ ایسے میں پارلیمنٹ کس مان سے اپنی اسمبلیوں کی کرسیاں خالی رکھ کر عدالت کو فل بنچ بنا کر اجتماعی غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے ، سپریم کورٹ کو مشورہ دینے سے پہلے پارلیمنٹ کو اپنے بارے یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ان کس طرز عمل اور سوچ ہی قوم کی اجتماعی سوچ کا عکاس ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ٔمنجے تھلے ڈانگ پھیرنے کا محاورہ استمعال کیا تھا تو ہماری بھی وزیر اعظم اور ان کی ہم خیال جماعتوں سے گذارش ہے کہ سپریم کورٹ کو اجتماعی سوچ کا مشورہ دینے سے پہلے اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیریں ، الیکشن کرائیں ، عوام کو اپنی اجتماعی سوچ کے اظہار کا موقع دیں۔۔ اور پھر اگر عوام ان کے حق میں فیصلہ دے تو موجودہ سیاسی اور شخصی اصلاحات کی جگہ ، پارلیمان کی باہمی رضا مندی سے جی کھول کر آئینی اداروں کی بہتری کے لئے اصلاحات کریں
سیاسی جنگ عدالتی یا آئینی محاذ پر نہیں سیاسی اور عوامی محاذ پر ہی لڑی اور جیتی جانی چاہئے