صحافت کے شعبے میں سب کچھ گڈ مڈ ہو کے رہ گیا ہے ۔ کچھ پتہ نہیں کون فیلڈ رپورٹر ہے ،کون سب ایڈیٹر ہے ، کون کالمسٹ ہے ، کون تجزیہ کار اور کون مبصر, لگتا ہے ہر کوئی ہر کام کر رہا ہے ۔ بس سمجھیں جس کے ہاتھ قلم یا مائیک لگتا ہے وہ چشمِ زدن میں سارے مراحل پھلانگتا ہوا تجزیہ کار بلکہ فیصلہ نگار کی مسند پر جا بیٹھتا ہے ۔
ہمیں ایسے موسمی و فصلی صحافیوں پر بھی شدید اعتراض ہے لیکن اس سے زیادہ شدید بلکہ شدید ترین اختلاف اس دور کے مجدد اور مستند مبصرین ، دانشوروں اور کالم نگاروں سے ہے کہ وہ بھی صرف اور صرف رننگ کمنٹری کرتے ، مکھی پر مکھی مارتے نظر آتے ہیں ، سب کے قبلے فکس ہیں اور سب اپنے اپنے سیاسی امام کے پیچھے اٹھک بیٹھک کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید کسی بھی دانشور کا کوئی مکتبہ فکر نہیں ،سب کا مطمع نظر کسی نہ کسی سیاسی گھرانے ، من پسند پولیٹیکل لیڈر یا ریاستی ادارے و ستون کی اندھی تقلید اور خوشنودی ہے۔ ہمارے اس الزام سے اس دور کے زیادہ سے زیادہ دو چار دانشور اور اینکر ہی مبرا ہوں گے ۔
آپ کوئی ایشو بتائیں ، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ فلاں فلاں کالمسٹ ، دانشور ، اینکر یا مبصر کی اس کے بارے کیا رائے دے گا ۔ اور میں شرط لگا سکتا ہوں کہ سو نہیں تو نوے فیصد میرا اندازہ درست ہو گا۔ اب آپ خود سوچیں اگر مجھ جیسا کم فہم ، نو آموز ان سیاسی پنڈتوں اور فلاسفروں کی سوچ یوں با آسانی پڑھ سکتا ہے تو ان کے فہم ، فکر ، سوچ ،گفتگو اور رائے کا معیار کیا ہو گا
ایک وقت تھا ، وہ وقت ہم نے دیکھا نہیں ہے لیکن اس وقت کے بارے اپنے والد اور ان کے ہم عصروں اور دوستوں سے سنا بہت ہے، کہ وزراء سے لیکر وزیراعظم تک ، اپوزیشن سے لیکر ملکی ستونوں پر براجمان ہر فیصلہ کار صبح سب پہلے ، اخبارات کا تفصیلی مطالعہ کرتا تھا ، خبروں کے لئے نہیں ملکی مسائل پر چیدہ چیدہ ، مستند کالم نگاروں کی رائے جاننے کے لئے ، اخبارات کے اداریوں سے وقت کی نبض جاننے کے لئے ۔ کیونکہ اس دور کے قلم کار صرف کیا ہو رہا ہے کا رونا نہیں روتے تھے ، ان کا زیادہ فوکس کیا ہونا چاہئے اور کیسے ہونا چاہئے پر ہوتا تھا ، اہلِ سیاست اور حکومتی و ریاستی ادارے فیصلہ سازی سے پہلے ان کی رائے سے ضرور رجوع کرتے تھے ۔ رائے پسند آئے نہ آئے اس رائے کو اہمیت ضرور دی جاتی تھی۔ قلم بہت حد تک آزاد تھا،
لیکن پھر بھٹو کے دور سے قلم کاروں کو زبردستی ایک راہ پر چلانے کی کوشش شروع ہوئی ، ضیاالحق کے دور میں یہ کوشش بالرضا اور بالجبر خوب پھلی پھولی اور نواز شریف کے پہلے دور میں اپنی معراج تک پہنچ گئی
تفصیل بہت طویل ہے ۔ حامد میر کا بیان کردہ ایک واقعہ اس ساری تفصیل کو کوزے میں بند کرنے کے لئے کافی ہے ۔حامد میر کہتے ہیں بینظیر کا پہلا دور حکومت تھا ، نواز شریف وزیر اعلی تھے ، انہوں نے مجھے اور دو تین صحافیوں کو اپنی مری کی رہائش گاہ پر بلایا اور ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد سنسنی خیز انداز میں کہا ” میں آپ کو ایک راز کی بات بتا رہا ہوں ، غلام اسحاق خان اسمبلیاں توڑنے لگے ہیں ، میں ملک کا وزیر اعظم بننے لگا ہوں اور مجھے آپ لوگوں کی مدد چاہئے” ۔ حامد میر کہتے ہیں میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ، میرے پیروں سے زمین نکل گئی ، میں نے غیر یقینی لہجے میں پوچھا” یہ کیسے ہو سکتا ہے” ۔ نواز شریف بولے ، اس بات کو چھوڑیں ، فیصلہ ہو چکا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ ہو چکا ہے وہ بھی ہماری حمایتی ہیں بس آپ نے ہمارا ساتھ دینا ہے”
حامد میر اور ان کے ساتھیوں نے نواز شریف کو کیا جواب دیا ، نواز شریف کا ساتھ دیا یا نہیں دیا ، یہ ایک الگ کہانی ہے جو حامد میر سے ہی پوچھی جا سکتی ہے ۔
میرا یہ واقعی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ضیاء الحق کے دور تک زور زبردستی یاق معمولی لیول تک اقربا پروری کا معاملہ تھا گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں قلم کے کھلم کھلا خریدار پیدا ہو گئے ، اور یہ صرف ایک پارٹی کا ہی طرہ امتیاز نہیں ہے ، اس حمام میں آہستہ آہستہ سب جماعتیں ، سب ادارے ننگے ہوتے چلے گئے
اور آج وہ دور آیا ہے کہ باقی تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح ہمیں بھی یہ احساس نہیں ہے کہ ہم الف ننگے ہو چکے ہیں
قومیں ذہن سازی سے بنتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ذہن ساز دماغ خود فکری اعتبار سے کھنگال ، یتیم ہو چکے ہیں، اپنے علم اور دانش سے عوام کی نہیں صرف اور صرف اپنی جھولیاں بھر رہے ہیں
میرے ہمزاد اتباف ابرک کہتے ہیں
یہ آئینے کا نہیں ہے حضور اپنا ہے
کہیں تو کس سے کہیں ہم قصور اپنا ہے
جو سبز باغ دکھائیں کمال ان کا نہیں
یہ آنکھ اپنی ہے ظالم فتور اپنا ہے