مبصرین کو خدشہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم – اس وقت نیتن یاہو وزیر اعظم تھے — جو آجکل شدید سیاسی دباو میں ہیں اس لئے کہ وہ حالیہ انتخابات کے بعد ایک نئی مخلوط حکومت بنانے کی کوششوں میں ناکام رہے ہیں، دنیا کی توجہ اپنی اس سیاسی کمزوری سے ہٹانے اور عوام میں اپنی مقبولیت کو بڑھانے کے لئے، شاید وہ سب کچھ کر گزرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اس سے قبل کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم نے نہیں کیا ۔۔ اس لئےاندیشہ ہوا کہ اس بار وہ غزہ پر فوجی قبضہ کر کے اسے ہمیشہ کے لئے اسرائیل میں ضم کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
میرے ایک دوست اور منجھے ہوئے صحافی انور اقبال نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا :
—- “کوئی مسلم ملک اسرائیل سے جنگ نہیں کرے گا اور نہ کر سکتا ہے۔ فلسطینیوں کو بڑھاوے دیکر اسے مزید برباد نہ کریں۔”
میرے ٹیلے فون کی سکرین پر ابھرے یہ بےجان ، خشک اور کھر درے نظر آنے والے الفاظ مجھے اتنے بے جان و بے معنی بھی نہیں لگے۔ مجھے یقین ہے کہ ان الفاظ نے بے شمار پیشانیوں پر شکنیں ڈالیں ہوں گی۔ کئی نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے ہاں میں ہاں ملا نے کے لئے اپنا سر بھی ہلا یا ہوگا ،اورمتعدد ایسے بھی ہوں گے جن کی گردنوں میں خم آگیاہو اور انکے سر شرمندگی سے جھک گئے ہوں ۔
میں سوچنے لگا کہ برادرم انور اقبال نے یہ چند انتہائی بامقصد و بامعنی الفاظ ، اس مخصوص ترتیب کے ساتھ کیوں لکھے ہیں؟ آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے ؟ کیا وہ واشنگٹن میں بیٹھ کراور وہاں کی ہوا کا رخ دیکھ کر ، صرف ہمیں معروضی صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔۔۔ یا، انکا یہ سب کچھ لکھنا ہماری کم مائیگی، اور مسلسل بے حسی اور بے عملی کی جانب ایک پوشیدہ سااشارہ تھا؟ وہ یہ لکھ کر صرف یہ یاد دلانا چاہتے تھے کہ مسلم دنیا کی یہ بے عملی اب برداشت کی حدوں کو پار کر چکی ہے؟
تو ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ ان کا مقصد کیا ہے لیکن اس پوسٹ پر لوگوں نے جو تبصرے کئے ہیں ، وہ اس مسئلہ پر تقریبا” ہر ممکنہ انسانی رد عمل اور تاثر کو پیش کر تے ہیں۔ ہمیں اسے دیکھتے ہوئے ایک بنیادی پہلو کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔
کچھ لوگو کا خیال ہے کہ یہودوں نے اپنے آئین و قانون کی اس شق کو اپنے پیش نظر ،بلکہ انتہائی مقدم رکھا ہواہے، جو انھیں اپنے دفاع میں دوسروں کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور، ان لوگوں نے ، جنھوں نے اس موضوع پر مجھ سے زیادہ غور فکر اور تحقیق کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ انکے قانون کی اس شق کا انحصار براہ راست توریت سے ہے۔ میں مذہبی کتابوں کے تقابلی مطالعے کا کوئی ماہر تو نہیں ہوں لیکن میں نے ایسی ہی باتیں کئی دیگر آسمانی کتابوں کے بارے میں پڑھی ہیں کہ ان میں “قتل کردینے” کی بات کی گئی ہے۔ یہ صرف ہماری کتاب قران ہے جس میں ایسے بات صرف ایک خاص پس منظر میں کہی گئی ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر تم معاف کردو تو بہتر ہے۔
اگر “توریت” کا یہ حوالہ درست ہے ،تو ہمارے لئے ایک قابل غور بات صرف یہ رہ جاتی ہےکہ یہودیوں نے “اپنی کتاب ” توریت کو آج بھی سینے سے لگایا ہوا ہے،صحیح یا غلط وہ اسی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اپنی سوچ کے مطابق اس پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔ اورحاوی ہیں؛ اور انھیں کوئی چیلینج بھی نہیں کرتا، جبکہ اس کے برعکس ہم ، ہم مسلمان جو آج کل ان کی زد پر ہیں ، ہم نے چونکہ اپنی عظیم کتاب، قران حکیم کو اٹھا کر طاق پر رکھ دیا ہے؛ اس سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے، اس لئے ہم ، جو کہ خود کومسلم امہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، اب اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ ہم میں اور ان میں بظاہر جو فرق ہے، وہ شاید بس اتنا ہی ہےکہ انھوں نے توریت کو سینے سے لگایا ہوا ہے اور ہم نے قرآن کو طاق پر اٹھا رکھا ہے۔
انور اقبال کی اس پوسٹ کے نیچے ایک امریکی خاتون “کیرن فشر” نے انور سے اختلاف کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: لیکن “کسی بھی مسلمان ملک کو اب خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہئے؛ یہ کھلی نسل کشی ہے ۔”
وزیر اعظم – اس وقت وہی وزیر اعظم تھے — عمران خان نے تمام پاکستانیوں کی دلی ترجمانی کرتے ہوئے، اپنے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے دوران ، یا شاید اس کے فورا” بعد ایک ٹوئیٹ کیا جس نے پورے عالم اسلام میں ایک گرم جوشی اور ہلچل سی پیدا کر دی۔انکا ٹوئٹ انتہائی مختصر اور آسان الفاظ پر مبنی تھا،لیکن سفارتی اعتبار سے وہ الفاظ انتہائی اہم، وزنی اور بھر پور تھے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے ۱۲ مئی کو اپنے نام سے بنے ٹوئٹر اکاونٹ پر لکھا:
— “میں پاکستان کا وزیر اعظم ہوں، اور ہم غزہ اور فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔”
ایک جوہری طاقت سے لیس قوم کے وزیر اعظم کا یہ بیان سفارتی اعتبار سے اتنا بھر پور اور وزنی تھا کہ اس سے اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم میں ایک اونچے درجے کا سفارتی زلزلہ ضرور آیا ہوگا۔ ترکی کے وزیر اعظم کا رد عمل بھی سخت اور بھر پور تھا۔لیکن ایک، یا دو مسلمان ممالک، امریکی اور یورپی ممالک کے مکمل سیاسی اور فوجی تحفظ میں رہنے والے اسرائیل کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ اس کے لئے جس مسلم اتحاد کی ضرورت ہے، ہمیں اس عظیم ، بڑے اور بھر پور اتحاد کا شاید ابھی مزیدانتظار کرناہوگا۔