اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کو توہین عدالت کیس میں سات روز میں اپنا جواب دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ منیر اے ملک اور مخدوم علی خان کوعدالتی معاون مقرر کرنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ ایک اور عدالتی معاون پاکستان بار کونسل کا ہو گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران کہا کہ عمران خان کے جواب سے انہیں دُکھ ہوا ہے اور ‘کیا یہ بہتر ہوتا کہ اس عدالت میں آنے سے پہلے وہ ایڈیشنل سیشن جج کے پاس چلے جاتے۔
سماعت کے دوران عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بات کرنے سے روک دیا اور ان کو خاموش رہنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور عمران خان کے درمیان ہے۔‘
معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ’شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم جاری کیا۔ میں عمران خان کے سارے بیانات ریکارڈ پر لے آتا ہوں۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ’اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکائت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟‘
کسی قیدی پر ذرا بھی تشدد ہو تو کیا کوئی جیل اس کو اس طرح رکھ لیتی ہے؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟‘
اس موقع پر عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی۔‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے شہباز گل کیس اور ریلی سے خطاب کا حوالہ دیا۔ ان کے ریمارکس تھے کہ ’اس عدالت نے کبھی تنقید کی پرواہ نہیں کی۔‘
چیف جسٹس نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت رات کھلی تو آپ کے کلائنٹ نے کہا عدالت رات کیوں کھلی۔ عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور نعیم حیدر پنجوتھہ ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔ عدالت نے سماعت آٹھ ستمبر تک ملتوی کر دی۔
style=”display:none;”>