مجھے ان دانشور حضرات پر شدید حیرت ہو رہی ہے جن کو اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ پی ٹی آئی نے گیارہ میں سے آٹھ نشستیں کیسے جیت لیں اس بارے میں طرح طرح کی توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے کرم فرما قلم کار اپنی دانشورانہ تجزیوں کے ذریعے, اس شکست میں بھی ایک سبز باغ کی آبیاری کر رہے ہیں۔
پہلی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اگر قومی اسمبلی کے تمام حلقوں میں عمران خود نہ کھڑے ہوتے تو نتائج اس کے بر عکس ہوتے، میری رائے ان تجزیہ کاروں سے سو فیصد برعکس ہے۔ اگر عمران کے امیدوار ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو اضافی ووٹ ملے ہیں تو حلقے کی لوکل سیاست اور عام انتخابات میں جیتنے والے امیدواروں کو برادریوں کی بنیاد پر ملنے والا ووٹ کم بھی ہؤا ہے، اس کے علاؤہ ایک بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کا ووٹر اس وجہ بھی پولنگ اسٹیشن تک نہیں آیا کہ اسے معلوم تھا کہ جیت کر بھی عمران نے سب سیٹوں سے استعفیٰ ہی دینا ہے تو پھر اس ضمنی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا فائدہ، عام انتخابات میں ہی ووٹ ڈالیں گے، اگر ووٹر کو یقین ہوتا کہ عمران الیکشن جیت کر یہ سیٹ رکھے گا اور اسمبلی میں جائے گا تو پی ٹی آئی کا ووٹر زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ کرتا۔ کل ملا کر میرا اندازہ ہے جتنے ووٹ ہی ٹی آئی کو عمران کی وجہ سے زیادہ ملے ہیں، کم ازکم اتنے ہی ووٹ حلقے کا اپنا امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے کم بھی ہوئے ہیں۔
کچھ تجزیہ کار یہ کہہ کر بھی پی ڈی ایم کو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ جیتی گئی تمام نشستیں تو تھیں ہی پی ٹی آئی کی، انہیں دوبارہ جیت کر کون سا تیر مارا گیا ہے، مریم نواز نے تو یہاں کہہ دیا ہے کہ آٹھ میں سے چھ سیٹیں دوبارہ جیت لینا ہی ٹی آئی کی جیت نہیں ہے بلکہ آٹھ میں سے دو سیٹیں ہار جانا ہی ٹی آئی اور عمران خان کے بیانیے کی شکست ہے۔
پہلی بات یہ کہ اگر اس تاویل کو اصول مان لیا جائے تو جہاں پی ٹی آئی اپنی 8 میں سے 2 یعنی 25 % نشستیں ہاری ہے، نون لیگ اپنی 3 میں سے 2 یعنی 66 % نشستیں ہاری گئی ہے۔ اگر 25 % نشستیں ہارنا شکست ہے تو 66 % نشستیں ہارنا تو شکستِ فاش سے کم نہیں۔
ویسے یہ بات سب جانتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے جن پی ٹی آئی ممبران کے استعیفے، اسپیکر نے قبول کئے تھے، عام انتخابات میں ان حلقوں کو مارجن بہت کم تھا، اتحادیوں کا خیال تھا کہ ضمنی انتخابات میں تمام پارٹیوں کے ووٹرز جب مل کر ایک مشترکہ امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے تو وہ آسانی سے عمران خان کو پچھاڑ لیں گے۔ کاغذ پر حساب لگایا جائے تو ایسا ہی لگتا تھا کہ نون، پی پی پی، اے این پی اور مولانا کا ووٹ جب اکٹھا ہو گا تو عمران کا صفایا ہو جائے گا لیکن نہ ایسا ہونا ممکن تھا نہ ایسا ہوا۔ ملکی سطح پر ان پارٹیوں کے اتحاد کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ حلقے کی سطح پر بھی ان پارٹیوں کا اتحاد ہو جائے گا۔
سیاسی پارٹیوں کے امیدوار جیتنے کے لئے اپنی عمریں لگاتے ہیں، وہ کسی دوسری پارٹی کے امیدوار کی مدد کر کے، اسے جتوا کر اس حلقے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا پتہ کیوں صاف کروائیں گے، یہ سیدھی سی بات شاید اتحادیوں کے کسی کرتا دھرتا نے نہیں سوچی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف ہارنے والی پارٹی اس ہار ہر پریشان ہے، باقی سب پارٹیاں اور ان کے اس حلقے کے امیدوار عمران کی جیت پر اندر ہی اندر خوش ہیں۔
آخر میں یہ کہوں گا، ان نتائج کا اتحادیوں خاص طور پر نون لیگ کو پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا ورنہ مرہم نواز ان اہم الیکشن سے عین پندرہ دن پہلے لندن جا کر نہ بیٹھ جاتی۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح اس ہار کا کریڈٹ لینے سے صاف بچ گئی ہیں۔