وفاقی بجٹ2022-2023ء کا اعلان کر دیا گیا جس کی مجموعی مالیت نو ہزار پانچ سو دو ارب روپے ہے۔بجٹ میں پائیدار اقتصادی ترقی، صنعتی اور زرعی ترقی اور غریبوں کی بہبود کے لئے اقدامات شامل ہیں۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تین ہزار نو سو پچاس ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے خرچ کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں آئندہ سال کے دوران سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے لئے آٹھ سو ارب روپے ملکی دفاع کے لئے ایک ہزار پانچ سو تئیس ارب روپے اور سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے پانچ سو پچاس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشنوں کی ادائیگی کے لئے پانچ سو تیس ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ غریبوں کی بہبود کے لئے چھ سو ننانوے ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گرانٹس کے لئے ایک ہزار دو سو بیالیس ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جن میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بیت المال اور دوسرے محکموں کے لئے رقوم شامل ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لئے ایف بی آر کے محاصل کا تخمینہ سات ہزار چار ارب روپے ہے۔اس میں صوبوں کا حصہ چار ہزار ایک سو ارب روپے ہے۔ وفاقی حکومت کے مجموعی محاصل چار ہزار نو سو چار ارب روپے ہوں گے۔بغیر ٹیکس کے حاصل ہونے والے محاصل کا تخمینہ دوہزار ارب روپے ہے۔
وزیر خزانہ نے ایڈہاک الائونسز کے ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں15 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کے لئے ٹیکس استثنیٰ کا سلیب بھی 6 لاکھ سے بڑھا کر12 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے تنخواہ دار طبقے کوفائدہ ہوگا اورتجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی۔کاروباری افراد اور اداروں کا سلیب4 لاکھ سے بڑھا کر6 لاکھ کر دیا گیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ سیونگ سرٹیفکیٹس، پنشنرز بینیفٹ اکائونٹس اور شہداء فیملی ویلفیئر اکائونٹس کے منافع پر ٹیکس10 سے گھٹا کر5 فیصد کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ چھوٹے دکانداروں کے لئے فکسڈ انکم اور سیلز ٹیکس بھی متعارف کرایا جارہا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ملک کی صنعتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے صنعتی پالیسی متعارف کروائی جارہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے برآمد کنندگان کے تمام کلیمز کی فوری ادائیگی کی ہدایت کی ہے۔اب تک ان کو40 ارب50کروڑ ڈ الر کی ادائیگیاں ہونی ہیں جو کہ جلد ہی ادا کر دی جائیں گی۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مالی مشکلات کے باوجودسیلز ٹیکس ری فنڈ بھی جلد ہی جاری کی جارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ صنعتی شعبے کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے صنعتی فیڈرز کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے نئی حکمت عملی بھی بنائی گئی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پالیسی کامقصد پیچیدہ طریقہ کار کو ختم کرکے سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرناہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور افزائش حیوانات کے لئے اکیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزارت تحفظ خوراک نے منصوبہ بندی کمیشن اور صوبوں کے تعاون سے تین سال کی ترقیاتی حکمت عملی وضع کی ہے۔اس حکمت عملی کا مقصد زرعی پیداوار بڑھانا ، کاشتکاروں کو خوشحال بنانا اور جدید زرعی طریقوں کو فروغ دینا ہے۔وزیرخزانہ نے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے لئے قومی یوتھ کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے لئے روزگار پالیسی کے تحت بیس لاکھ اسامیاں پیدا کی جائیں گی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف عوام خصوصاً غربا کو اس مشکل وقت میں زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرناچاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے حکومت نے اعانت اور مدد فراہم کرنے کے لئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہمارے بجٹ کا فلسفہ زرعی درآمدات خصوصاً خوردنی تیل کی درآمد میں کمی لانے کے لئے زرعی پیداوار کو بڑھانا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں برآمدات میں اضافے اور زرمبادلہ کے حصول کے لئے صنعتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ مستقل بنیادوںپر حل کرنے میں مدد ملے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کفایت شعاری موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ فرنیچر اور دیگر اشیاء کی خریداری پر پابندی کے علاوہ گاڑیوں کی خریداری پر بھی مکمل پابندی ہوگی۔کابینہ کے ارکان اور سرکاری ملازمین کے پٹرول کوٹے میں 40 فیصد کٹوتی کی جائے گی۔اہم دوروں کے سوا حکومت کے اخراجات پر سرکاری دوروں پر بھی پابندی عائد ہوگی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے وسیع البنیاد وسط مدتی معاشی لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بغیر شرح نمو حاصل کرنا ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے اور توازن کو خراب کیے بغیر کم سے کم پانچ فیصد شرح نمو حاصل کی جائے گی۔مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اگلے مالی سال کے دوران مجموعی قومی پیداوار سڑسٹھ ٹریلین روپے سے بڑھ کر اٹھہتر ٹریلین روپے سے زائد ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم بہتر مالی پالیسیوں کی بدولت مہنگائی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اگلے مالی سال کے دوران مہنگائی گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد تک ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے دوران ٹیکس کیلئے جی ڈی پی موجودہ آٹھ اعشاریہ چھ سے بڑھ کر نو اعشاریہ دو تک بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مجموعی خسارہ جو اس وقت آٹھ اعشاریہ چھ فیصد ہے اسے بتدریج نیچے لایا جائے گا۔اگلے مالی سال کے دوران اسے چار اعشاریہ نو فیصد تک لایا جائے گا۔اس طرح مجموعی ابتدائی توازن جو ابھی جی ڈی پی کا منفی دو اعشاریہ چار فیصد ہے کو صفر اعشاریہ ایک نو فیصد تک بڑھایا جائے گا۔
ترقیاتی ترجیحات پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت جاری منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھے گی تاکہ ان پر خرچ ہونے والی رقم ضائع نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر فنڈز بلوچستان کی ترقی پر خرچ کیے جارہے ہیں تاکہ اس صوبے کو دوسرے علاقوں کے برابر لایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں، آزاد جموں و کشمیراور گلگت بلتستان کے لئے سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کی رقم بڑھا کر ایک کھرب چھتیس ارب روپے کر دی گئی ہے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مہمند اور دیامر بھاشا ڈیموں کی جلد تکمیل کے لئے اضافی رقوم مختص کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے تین کھرب پچانوے ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ توانائی اور آبی وسائل کے مختلف منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر ایک سو تراسی ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ توانائی کا شعبہ عوام کے علاوہ صنعتوں اور تجارت کے لئے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پانچ کھرب تہتر ارب روپے مختص کئے گئے ہیں تاکہ عوام موسم گرما میں بھی بجلی کی سہولت حاصل کر سکیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے پٹرولیم کے شعبے میں واجب الادا رقوم کی ادائیگی کے لئے دو کھرب اڑتالیس ارب روپے جاری کئے ہیں جبکہ آئندہ مالی سال میں اکہتر ارب روپے فراہم کئے جائینگے۔انہوں نے کہا کہ ہم جلد صنعتوں کے لئے تقابلی نرخوں پر گیس کے نئے ٹیرف کا اعلان کرینگے جس سے برآمدات کے اضافے میں مدد ملے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے لئے موجودہ بجٹ میں پینسٹھ ارب روپے مختص کئے ہیں۔اس کے علاوہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی ترقیاتی سکیموں کے لئے چوالیس ارب روپے رکھے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں سڑسٹھ فیصد زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع کے طلبہ کے لئے پانچ ہزار تعلیمی وظائف کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے لئے تعلیمی وظائف کی ایک الگ سکیم بھی شامل کی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے ملک بھر میں طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان اقساط پر دینے کا بھی اعلان کیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے مالی سال کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ بڑھا کر 364 ارب روپے کر دیا گیا ہے اور یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعے اشیائے ضروریہ پر سبسڈی کی فراہمی کیلئے بارہ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رمضان پیکج کے لئے پانچ ارب روپے کی رقم الگ رکھی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بے نظیر کفالت کیش ٹرانسفر پروگرام کی سہولت اگلے مالی سال 90 لاکھ مستحق خاندانوں کو دستیاب ہو گی۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بے نظیر ایجوکیشن پروگرام کے وظیفے کا دائرہ کار ایک کروڑبچوں تک بڑھایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مزید دس ہزار طلبہ کو بے نظیر انڈر گریجویٹ سکالر شپ دیئے جائینگے اور بے نظیر نشوونما پروگرام کو تمام ضلعوں تک توسیع دی جائیگی۔اسی طرح مستحق خاندانوں کی طبی امداد اور معاونت کیلئے پاکستان بیت المال کیلئے چھ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے سولر پینلز کی درآمداور مقامی سطح پر ترسیل کو ٹیک سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے 200 سے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینلز کی خریداری کے لئے بینکوں سے آسان شرائط پر قرضوں کا انتظام کیا جائے گا۔کسان برادری کو سہولیات دینے کے لئے وزیر خزانہ نے مختلف فصلوں کے بیجوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ٹریکٹروں اور زرعی مشینری کی خریداری پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ زرعی مشینری اور اس صنعت سے کسٹم ڈیوٹی بھی ختم کر دی گئی ہے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کو مستحکم کرنے کے لئے اس پرعائد چار سو اقسام کی محصولات کو کسٹم ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کی مد میں معقول بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کے شعبے کے دیرینہ مطالبات کے پیش نظر مصنوعی دھاگے پر محصولات کو معقول بنایا گیا ہے۔
style=”display:none;”>