ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وزیر خارجہ، اینٹنی جے بلنکن کا کہنا ہے کہ “عوامی جمہوریہ چین وہ واحد ملک ہے جو بین الاقوامی نظام کی تشکیل نو چاہتا ہے اور اس کے پاس ایسا کرنے کے لیے معاشی، سفارتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کی طاقت بھی موجود ہے۔” مسٹر بلنکن “دی جارج واشنگٹن یونیورسٹی،” واشنگٹن ڈی، سی کی ایشیاء سوسائیٹی میں طلبا سے خطاب کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ “عالمی معیشت میں اور موسمیات سے کووڈ تک بہت سے مسائل کو حل کرنے کی ہماری اہلیت کے حوالے سے بھی چین کی خاص اہمیت ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو امریکہ اور چین کو مستقبل قریب کے لیے ایک دوسرے سے مل کر کام کرنا ہو گا۔ “
امریکی وزیر خارجہ نے یہ اہم تقریر ۲۶ مئی کو کی جس میں انھوں تقریبا” تمام اہم عالمی امور پرچین، روس اور کئی دیگر ممالک کے بارے میں اپنے ملک کے نقطہ نظر کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے صدر ٹرمپ کے دورحکومت میں خارجہ امور میں امریکہ کی کم آمیزی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا کہ ” ۔۔۔ یہ سادہ حقیقت مشترک ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ان مسائل سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔ ہمیں ان کا اکٹھے سامنا کرنا ہے۔ اسی لیے ہم نے سفارت کاری کو دوبارہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا ہے تاکہ ہمیں اس مستقبل کوعملی صورت دینے میں مدد ملے جس کی امریکہ اور دنیا بھر کے لوگ خواہش رکھتے ہیں۔”
امریکی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں ان تمام حل طلب مسائل کی بھی نشاندہی کی جن پر چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات بدستور موجود ہیں۔ ان میں چین کے اندر بھی اور تبت اور ہانگ کانگ میں بھی “انسانی حقوق ” کی مبینہ خلاف ورزیوں کی شکایات بھی شامل ہیں ۔ لیکندونوں ملکوں کے درمیاں ان تمام اختلافات کی موجودگی کے باوجود، وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا تھا کہ “ہم تنازع یا ایک نئی سرد جنگ نہیں چاہتے۔ اس سے برعکس ہم ان دونوں سے گریز کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم چین کو یا کسی دوسرے ملک کو ایک بڑی طاقت کا کردار ادا کرنے اور انہیں اپنی معیشت کو ترقی دینے یا اپنے لوگوں کے مفادات کو فروغ دینے سے روکنا نہیں چاہتے۔”
“عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں امریکی انتظامیہ کی حکمت عملی” کے موضوع پر امریکی وزیر خارجہ کے اس تفصیلی خطاب میں جہاں چین کے ساتھ متعدد اختلافی معاملات کی نشاندہی کی گئی، وہیں ان کی تقریر سے ایک تاثر یہ بھی ابھرتا نظر آیا کہ ماضی قریب کی طرح امریکہ چین کو بار بار “دشمن” قرار دینے کی بجائے، اب عالمی سطح پراس کے لئے مفاہمت کا پیغام دینا چاہتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ “ہم بین الاقوامی قانون اور اُن معاہدوں، اصولوں اور اداروں کا دفاع کریں گے اور انہیں مضبوط بنائیں گے جو امن و سلامتی برقرار رکھتے ہیں، افراد اور خودمختار ممالک کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور امریکہ اور چین سمیت تمام ممالک کے لیے بقائے باہمی اور تعاون ممکن بناتے ہیں۔”
وزیر خارجہ نے یاد دلایا کہ “آج کا چین 50 سال پہلے کے چین سے بہت مختلف ہے جب صدر نکسن نے اس کے ساتھ دہائیوں پر مشتمل کشیدہ تعلقات کا خاتمہ کیا اور چین کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بنے۔ اس وقت چین دنیا سے الگ تھلگ تھا اور بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور بھوک سے لڑ رہا تھا۔”
ان کی اس تقریر میں جہاں چین کے لئے ایک ملا جلا پیغام تھا، انھوں نے روس کے صدر پوٹن کا ذکر کرتے ہوئے ان کے فیصلوں سے اپنے شدید اختلاف رائے کو چھپانے کی کوشش بالکل نہیں کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ “روس کے صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی جانب سے اس نظام کو واضح اور موجود خطرہ درپیش ہے۔ تین ماہ پہلے یوکرین پر چڑھائی کرکے انہوں نے خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے ان اصولوں پر بھی حملہ کیا جن کا تذکرہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہے اور جن کا مقصد تمام ممالک کو مفتوح ہونے اور جبر کا نشانہ بننے سے تحفظ دینا ہے۔”
(— خارجہ امور سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے، امریکہ کے وزیر خارجہ کی اس تقریر کے متن کا مکمل اردو ترجمہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور امریکی سفارت خانہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہَے:
state.gov/the administrations approach to the peoples republic of china/)
style=”display:none;”>