مثالی عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے مذہبی مقرر اور ٹیلیویژن کے تفریحی پروگراموں کے، دور حاضرکے ‘کامیاب ترین’ میزبان، عامر لیاقت حسین اب ہم میں نہیں رہے۔ ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا کے آج کے اس جدید دور میں ان کے انتقال کی خبرآئی تو دیکھتے ہی دیکھتے، جنگل کی آگ کی طرح ملک کے طول وعرض میں پھیل گئی۔
پاکستان میں عوامی سطح پر اپنی شناخت بنانے اور مقبولیت کا اعلی’ مقام حاصل کرنے والی ایسی شخصیات ملک میں آج کل بہت کم ہی نظر آئیں گی۔ عامر ایک مذہبی عالم تھے، ٹی وی کے پروگرام کے میزبان تھے یا ایک سیاست دان تھے، ان کی شناخت کے اس بری طرح الجھی ہوئی ڈور پر لوگوں میں کافی دنوں تک گفتگو ہوتی رہے گی، لیکن اس بحث میں کسی نتیجہ پر پہنچنا ہر ایک کے لئے بے حد دشوارہو گا۔ اس لئے کہ ہر دل، ہر ذہن اور ہرخیال میں بسنےوالا عامر لیاقت حسین بالکل مختلف ہو گا۔
جس عامر سے میری ملاقات ہوئی وہ ایم کیوایم کے رکن تھے اور جنرل مشرف دور کی حکومت میں وزیرمملکت برائے مذہبی امورتھے اورعالم آن لائن کے، یا اسی طرز کےکسی بے حد مقبول مذہبی پروگرام کے میزبان تھے۔ ویسے تو ان سے ٹیلی ویژن سکرین پربارباراور کئی بارملاقات ہوا کرتی تھی لیکن بالمشافہ، آمنے سامنے، میں ان سے صرف ایک بارملا ہوں۔ اسلام آباد کے واحد بڑے، ‘ ۵ – ستاروں’ والے ہوٹل میں، میں پاکستان کے ایک بہت بڑے، بلکہ میری ذاتی رائے میں پرائیوٹ ٹیلیویژن چینل کے ملک کے پہلے، ‘ٹاک شو’ ہوسٹ کے ساتھ ساتھ دوپہر کا کھانا کھارہا تھا۔ ان دنوں میں امریکی سفارت خانہ کا میڈیا کے معاملات کا مشیر ہوا کرتا تھا۔ میرے میزبان نے میری پشت پربیٹھے کسی شناسا کو دیکھ کرہاتھ ہلایا، لیکن پھرانہیں کھڑا بھی ہونا پڑا۔ اس لئے کہ وہ ان سے ملنے ہمارے میز پر آگئے۔ بولتی مسکراتی آنکھوں والے عامر لیاقت حسین سے میرے میزبان نے میرا تعارف کرایا تو وہ ایک دم خاموش ہوگئے۔ اور پھر ایک مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے بولے، ” او ہو۔ بھئی آپ سے توپھر خاص طورملنا ہوگا – آپ لوگ توبادشاہ گر ہیں۔” میں ہنس دیا اور وہ فوراً ہی اپنی میز پر واپس چلے گئے، جہاں ان ہی کی جماعت کے ایک دوسرے وزیرکھانے پر ان کا انتظار کر رہے تھے۔
عامر لیاقت حسین کیا تھے؟ یا عامرلیاقت بننا کیا چاہتے تھے؟ یا کیا بنتے بنتے، کیا بن گئے؟ یا لوگوں نے انہیں کیا بننے نہیں دیا، اور انہیں ‘سیدھے رستہ پر’ چلنے میں ان کی مدد کرنے کی بجائے، کیا سے کیا بنا دیا؟ یہ کسی محقق کے لئے ایک انتہائی سنجیدہ اورغوروفکر کا موضوع ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنی عام زندگی میں کتنے عامر لیاقت حسین سے ملتے رہتے ہیں، وہ ہنستے مسکراتے ، چینختے پکارتے، یا خاموشی کے ساتھ نظریں جھکا کر، آپ کا دامن پکڑا کر یااپنا دامن بچا کر گزر جاتے ہیں لیکن ہم ان کی مدد کر نے کی بجائے، انہیں سہارا دینے کی بجائے خاموشی سے انتہائی غیر ذمہ داری سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اور پہر ہماری اپنی زندگی میں آنے والے مختلف نظر آنے والے عامربھی شہریا ملک چھوڑدینے کی دھمکی دے کر، بالکل اسی طرح دنیا ہی چھوڑ جاتے ہیں، اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ عامر لیاقت حسین کی موت کا – اس انجام کا ذمہ دار کون ہے؟
وہ جو آج تک اس کی مقبولیت اورعوام میں بھرپور پذیرائی کا بھر پور “مالی فائدہ” اٹھاتے رہے ؟ اسے اپنے اپنے ٹی وی چینلوں پر پیش کرنے کے لئے اس کی بولیاں لگاتے اورایک دوسرے سے چھینتے جھپٹتے رہے؟ یا وہ جو اسے ایک مذہبی عالم بنا کر پیش کرتے رہے اور اس کی مقبولیت کو اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے استعمال کرتے رہے؟ قصور وار کوئی ہو اور اس کے موت کی وجہ کچھ بھی، ہم نے دیکھا کہ ایک ہنستا مسکراتا ہوا روشن آنکھوں والا “بچہ” عوامی شہرت اور بے حساب دولت کی چندھیا دینے والی اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تیز روشنیوں کے جال میں الجھ کر عوامی مقبولیت کی گہری کھائی میں گرا اور ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگیا۔
ہم کہ جو تماشائی ہیں ایک نئے تماشہ کا انتظار کریں گے اور وہ جو تماشا دکھاتے ہیں کوئی اور عامر لیاقت تراش لیں گے۔ لیکن ہم سے بچھڑ جانے والے عامر کی مسکراتی آنکھیں ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتی رہیں گی۔