عمران خان کو صحیح نا اہل کیا گیا کہ غلط، اس بحث میں پڑے بغیر ہمیں الیکشن کمیشن سے ایک سوال کرنا چاہئے کہ۔ عمران خان کی نا اہلی کا فیصلہ کافی دن پہلے محفوظ کر لیا گیا تھا، پھر نا اہلی کا فیصلہ محفوظ کرنے والے انہی پانچ معززین کی زیرِ نگرانی کچھ دن بعد ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، ان پانچوں فیصلہ سازوں کے علم میں ضمنی الیکشن سے پہلے اپنا ہی کیا گیا یہ فیصلہ تھا کہ عمران خان نا اہل ہے اور قومی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا، تو سوال یہ ہے انہوں نے عمران کو الیکشن لڑنے ہی کیوں دیا، الیکشن سے پہلے ہی یہ فیصلہ کیوں نہیں سنا دیا گیا کہ عمران خان نا اہل ہیں، اس لئے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
چلو خوش گمان رہتے ہیں کہ ان پانچوں پر خان کو نا اہل کرنے کے لئے کوئی دباؤ نہیں تھا، انہوں نے فیصلہ کم از کم اپنی سوچ کے مطابق سو فی صد میرٹ پر ہی کیا تو پھر بھی ان سے یہ تو پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے عمران کو الیکشن لڑنے ہی کیوں دیا یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی جج پہلے مجرم کی رحم کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر دے پھر مجرم کو پھانسی دے دی جائے اور پھر پھانسی سے اگلے دن جج صاحب اپنا محفوظ فیصلہ سنائیں کہ مجرم بے گناہ ہے۔
اگر ضمنی انتخابات سے پہلے ہی یہ فیصلہ سنا دیا جاتا تو کم ازکم عمران کی جیتی ہوئی چھ نشستوں پر مزید ضمنی انتخاب کی ضرورت نہ پڑتی ، قوم کا اربوں روپیہ اور وقت بے کار نہ جات اور کچھ نہیں تو چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ممبران کو اس نا اہلی ، کم فہمی پر کٹہرے میں ضرور کھڑا کرنا چاہئے ، ان لقمان حکیموں سے عام آدمی کی عقل و فہم سے بالا حکمت عملی کے پیچھے چھپی وجوہات کا راز ضرور پوچھنا چاہئے، یہ الیکشن کمیشن کے لئے بھی موقع ہو گا , وہ اس سوال کا جواب دے کر اپنے اوپر قوم کا اعتماد بحال کر سکتا ہے۔