ایک پاکستانی نیورو سائنٹسٹ کی تحقیق کے نتیجے میں دماغی مرض ڈیمینشیا کے علاج میں اہم پیش رفت ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اب تک اس لاعلاج مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں مقیم لاہور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر علی جاوید ورچوئل ریئیلٹی ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیمینشیا کے مریضوں کے علاج پر تحقیق کر رہے ہیں۔ڈاکٹر علی جاوید پولینڈ میں برین سٹی سینٹر وارسا کے سربراہ ہیں۔ یہ لیبارٹری نیوروسائنسز میں ٹرانزیشنل ریسرچ پر کام کر تی ہے۔ ڈاکٹر علی جاوید نے بتایا کہ ڈیمینشیا پر تحقیق کرتے ہوئے انہوں نے نوٹ کیا کہ مریض کے اپنے قریبی افراد اور باہر دنیا کے ساتھ اس کے روویوں میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس سے نا صرف مریض بلکہ اس سے جڑے تمام افراد کی زندگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید کے مطابق عموما ڈیمینشیا اور الزائمر کو لاعلاج سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کے شکار افراد بے رغبتی کا شکار ہو کر وہ مشاغل بھی ترک کر دیتے ہیں، جو کبھی ان کے پسندیدہ ہوتے تھے۔ ڈیمینشیا پر برسوں سے تحقیق کرتے ہوئے انہیں خیال آیا کہ کسی طرح مریضوں کے دماغ کو ری ایکٹو کیا جائے، جس سے انہیں ماضی کی باتیں یاد آنے لگیں۔
ڈاکٹر جاوید کا کہنا تھا کہ اس سے انہیں تحریک ملی کہ ورچوئل ریئیلٹی کے ذریعے ڈیمینشیا کے شکار افراد کو مصنوعی ماحول فراہم کر کے کچھ عرصے ان کی تربیت کی جائے تو غالب امکان ہے کہ انہیں ماضی کے تجربات یاد آنے لگیں۔ اس طرح ان کے دماغ کے وہ حصے ری ایکٹو ہو سکتے ہیں، جو یادداشت کی کمزوری کا باعث متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اس تکنیک کو سائنسی اصطلاح میں “انوائرمینٹل این رچمنٹ کہا جاتا ہے، جس پر دنیا بھر میں تحقیق ہو رہی ہے مگر پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔
اس تحقیق کے لیے انہوں نے ماڈل اس طرح تیار کیا تھا کہ مریضوں کو چند منتخب کردہ جگہوں کا مصنوعی ماحول دکھایا جائے، جیسے وہ ان مقامات کی سیر کر رہے ہوں۔ اس انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ ڈیمینشیا کے مریض علاج کے دوران ہسپتال یا گھر تک محدود ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی دوسری جگہ لے جا کرعلاج کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر جاوید کے مطابق جن تین جگہوں کا انتخاب کیا گیا وہ اہرام مصر، مسجد الحرام اور دیوار چین تھیں۔ اس تحقیق میں لمز یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنسدان ڈاکٹر سلیمان شاہد نے ان کی معاونت کی۔ تحقیقی تجربات میں حصہ لینے والے سات مریضوں کا تعلق بھی لاہور سے تھا، جنہیں چھ ماہ تک نگرانی میں رکھا گیا اور اس دوران ورچوئل ریئیلٹی ہیڈ سیٹ کے ذریعے ان مقامات کی سیر کروائی گئی۔ ان مریضوں کی عمر ساٹھ برس سے زیادہ تھی اور وہ درمیانے درجے کے ڈیمینشیا مرض کا شکار تھے۔ دنیا بھر میں ورچوئل ریئیلٹی ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیمینشیا کا علاج ابھی کلینیکل ٹرائل میں ہے اور مختلف ممالک میں اس پر تحقیق جاری ہے۔ اگرچہ ان کے تحقیق کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں مگر اس میں ابھی بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چھ ماہ کے ٹرائل علاج میں مریضوں کی ذہنی صحت میں واضح بہتری نوٹ کی گئی۔ موڈ کی بہتری کے ساتھ ان میں سے کئی اپنے پرانے مشاغل میں دلچسپی لینے لگے اور کچھ نے مکہ اور دیگر مقامات پر ماضی میں اپنے سفر کی روداد بھی سنائی۔ ماضی کی باتیں دوہرانے کا مطلب یہ تھا کہ دوران علاج یادداشت سے متعلق دماغ کے حصے ری ایکٹیویٹ ہوئے ہیں۔
style=”display:none;”>