ایک سرکس لگا ہؤا ہے
‘پھٹی پرانی سرکس’
یہ نام لکی ایرانی سرکس سے متاثر ہو کر دیا گیا ہے۔
کھلاڑی ، مداری ، شیر ، چیتے ، لومڑ ، بندر، جادوگر ، شعبدہ باز ، رقاصائیں اور جوکر سب اپنی استطاعت سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس سرکس کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ تماشائی صرف تماشائی نہیں ہیں بذات خود اس تماشے/ سرکس کا حصہ بنا دئے گئے ہیں
تماشائیوں کی درست تعداد مردم شماری کے بعد ہی معلوم ہو گی لیکن اندازہ ہے کہ یہ بائیس کروڑ کے قریب ہے
اس سرکس کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ تماشا ایک ہی دکھایا جاتا ہے لیکن تماشائی اسے اپنی خواہش ، ضرورت اور منشا کے مطابق دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ایک ہی تماشے پر کچھ تماشائی تالیاں پیٹتے ، نعرے مارتے ، سیٹیاں بجاتے نہیں تھکتے اور اسی تماشے پر باقی تماشائی ، تماشا کرنے والوں کی طرف ہاتھ سے پانچ کا اشارہ کرتے ہوئے ایسے الفاظ کا ورد شروع کر دیتے ہیں جن کا معنی بیان کرنا کسی بھی لغت کے بس سے باہر ہے۔
اس سرکس کو لگے پچھتر برس ہو گئے اور بلا مبالغہ ایک دن بلکہ ایک لمحے کو بھی اس میں تعطل نہیں آیا ۔ ہفتے دس دن بعد کوئی نہ کوئی فن کار کچھ نہ کچھ نیا پیش کر دیتا ہے ۔ ہاہاکار مچ جاتی ہے ۔ پنڈال میں اک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے ۔کہیں سے صدا آتی ہے محفل لوٹ لی تو کہیں سے آہ و بکا ہوتی ہے لٹ گئے لٹ گئے۔ ابھی میری طرح کے نو آموز ، نا تجربہ کا، نابینا و کم فہم قسم کے تماشائی یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ لٹے ہیں یا ہمیں لوٹ لیا گیا ہے کہ ایک نیا آئٹم پیش کر دیا جاتا ہے ۔ پجھلے تماشے کی اہمیت اور بازگشت ایکدم ختم ہو جاتی ہے اور اس نئے پر سینہ کوبی یا بغلیں بجانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بظاہر تو یہ سرکس مفت دکھایا جا رہا ہے یعنی تماشائیوں سے کوئی ٹکٹ نہیں لی جاتی لیکن ایسا نہیں ہے ہم سب اس سرکس کو دیکھنے کی قیمت ادا کر رہے ہیں ۔ اور وہ قیمت ہے ہمارا اور ہمارے نسلوں کا مستقبل
اس سرکس کے بارے اک بحث روزِ اول سے جاری ہے اس کا مالک و مختار کون ہے، اسے چلا کون رہا ہے، اس بارے بھی 22 کروڑ تماشائیوں کی رائے بدلتی رہتی ہے ۔کیسے یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔
بہرحال اس سرکس کا کرتا دھرتا جو بھی ہے وہ اپنی اہمیت برقرار رکھنا بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے ۔ وہ شعبدہ بازی ، نظر بندی کے فن میں طاق ہے، وہ ہمیشہ 9 کے ہندسے والے استادی سے کام لیتا ہے۔ وہ ہمیشہ 9 کا ہندسہ ہی لیتا ہے اور پنڈال کے فرش پر گھما دیتا ہے ۔ سب تماشائیوں کی نظریں اس ہندسے پر جم جاتی ہیں اور پھر جب 9 کا ہندسہ رکتا ہے تو ایک طرف ہے تماشائیوں کو وہ 9 ہی نظر آتا ہے لیکن دوسری طرف والے اسے 6 بتاتے اور باقی دو اطراف میں بیٹھے شعبدہ باز کے حکم کے انتظار کرتے ہیں کہ اسے 6 کہنا ہے کہ 9 ۔ یوں حتمی فیصلہ ہمیشہ شعبدہ باز کے ہاتھ رہتا ہے ۔ اس چھ نو کے چکر میں وہ اپنی دکان ہمیشہ چمکائی رکھتا ہے ۔ پچھلے 75 سال میں ایک بھی شعبدہ باز ایسا نہیں آیا جو چھ یا نو کی بجائے تماشائیوں کے سامنے 8 کا ہندسہ گھمائے کہ رکنے پر وہ چاروں اطراف سے 8 ہی نظر آئے۔ ایسا ہو جائے تو فیصلے کے لئے ان شعبدہ بازوں کی طرف کون دیکھے۔ سو یہ شعبدہ باز ہمیشہ 6 یا 9 ہی گھماتے رہیں گے اور ہمیں اپنے فیصلے سناتے رہیں گے۔