لاہور کے سٹیج پر جو ڈرامے دکھائے جاتے ہیں وہ اپنی ہیئت اور ترکیب کے اعتبار سے اسٹیج ڈراموں کی روایت، موضوعات اور مقصد کے اعتبار سے یکسر “مختلف” ہیں۔ میری اپنی ذاتی رائے میں انہیں ڈرامہ کہنا ہی غلط ہوگا۔ اس لئے کہ لاہور کے سٹیج پرپیش کئے جانے والے یہ کھیل، اپنی ساخت اور بنت میں، ڈرامہ کی بنیادی تعریف پرہی پورے نہیں اترتے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ کھیل، یا تماشہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ لاہورکے سٹیج پر ہونے والے ان کھیل تماشوں کا تقابل یا موازنہ، ان کے”فارمیٹ” اورپیش کئے جانے کے انداز کی وجہ سے فوراً ہی ان سٹیج ڈراموں سے کیا جانے لگتا ہے، جو ہندوستان اور پاکستان میں امتیاز علی تاج جیسے لکھنے والوں کی ادبی کاوش ہوا کرتے تھے یا کمال احمد رضوی جیسے قد آورہدایت کاروں اوراداکاروں کی فنی مہارت کا نمونہ تھا۔
اگر ہم اپنی تاریخ میں فنی یا ادبی تخلیق کے حوالے سے سٹیج ڈراموں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں، تو ہمیں اس کے لئے شاید بہت پیچھے نہ جانا پڑے۔ اس لئے کہ سٹیج کئے جانے والے اردو، یا اس خطہ کی دیگر زمانوں میں پیش کئے جانے والے کھیلوں، یا تھیٹر پر نظر ڈالیں تو ہمیں ان کی روایت کچھ اتنی زیادہ پرانی بھی نظر نہیں آئے گی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ لاہور کے سٹیج تک پہنچتے پہنچتے اس کی شکل و صورت بری طرح مسخ ہو گئی۔ یہ فرق، ڈرامے کی ہئیت اور اندازکا فرق بھی ہے اور سکرپٹ کا فرق بھی ہے ۔ بلکہ اگر ہم دیکھیں تو یہ دراصل ہمیں آغا حشر کاشمیری کی قائم کردہ روایت کی ایک بگڑی ہوئی، اور مسخ شدہ شکل نظر آئے گی۔
اسٹیج ڈراموں کی جب بھی بات ہوگی تو جو پہلا نام ذہن میں آئے گا وہ ظاہر ہے آغا حشر کاشمیری کا نام ہی ہوگا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ تو شاید اس کی یہی ہے کہ آغا جی کی کوشش اردو میں شاید پہلی کوشش تھی، جو تفریح کے اس ذریعہ، یعنی سٹیج ڈراموں کو حویلیوں اور محلات سے باہر نکال کر، عام آدمی تک لے آئی، اورلوگوں سے خوب خوب داد پائی۔ دوسری وجہ، اور شاید بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ وہ ڈرامے ہیں جو باقاعدہ لکھے گئے تھے؛ ان میں کہانی، ایکشن، اور کانے سب کچھ ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے ان کے ڈرامے ہمارے مقبول ادب کا حصہ بن گئے۔
عام دستیاب حوالوں اور سٹیج ڈراموں پر لکھے گئے تحقیقی مضامین سے پتہ چلتا ہے کہ “کھیلے جانے والے” ڈراموں کی روایت اس سے بھی بہت پہلے موجود تھی۔ یونانی روایت میں بھی اورسنسکرت میں بھی اس کا وجود نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر انجمن آرا انجمؔ نامی ایک خاتون محقق ، جنہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے، اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ، “ان روایات میں وہ ۔۔ ڈرامہ — مذہب کا بھی حصہ تھا اور شعری وادبی سرمایہ کا بھی۔ لیکن دونوں ہی زبانوں میں یہ اپنے عروج تک پہنچ کر زوال کا شکار ہو گیا۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی یہ روایات آگے نہ بڑھ سکی۔ اردو شعرو ادب کا آغاز ہوا تو مختلف شعری و نثری اصناف پر توجہ دی گئی۔ لیکن ڈرامے کی طرف کوئی التفات نہ ہوا۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں. لیکن شاید ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ڈراما لکھنے پڑھنے سے زیادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کھیلنے ‘‘کا متقاضی ہوتا تھا جس میں مختلف کرداروں کا بہروپ بھرنا ہوتا تھا اور یہ کام بھانڈوں اور نقالوں سے وابستہ قرار دیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔”
انجم صاحبہ کی یہ بات کچھ قرین قیاس لگتی ہے۔ یہ صنف اظہار یا تفریح کا یہ ذریعہ اسی وجہ سے ایک طویل عرصہ تک قلمکاروں کی توجہ حاصل نہ کر پایا کہ اسے بھانڈوں اور نقالوں سے منسوب کیا جاتا رہا اور انہیں معاشرے میں اس وقت بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ تفریح کے اس ذریعہ کو “شاہی سرپرستی” حاصل ہو گئی اوراسے ایک بار پھرمقبولیت ملنے لگی۔
ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں علم و ادب کے رسیا، کھیل تماشوں کے شوقین، رقص و موسیقی کے دلدادہ اور جدت پسند طبع کے مالک ایک صاحب نظر آتے ہیں جن کا نام، نواب واجد علی شاہ تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے ۱۸۴۳ میں ’’رادھا کنھیا” کی کہانی کو ایک “کھیل” یا ڈرامہ کی شکل میں پیش کیا – یعنی اسٹیج کیا۔ بلکہ واجد علی شاہ کے اس ڈرامہ کو کھیل تماشہ کے طور پر پیش کرنے کی وجہ سے اسے “رہس منڈل” کہا جانے لگا۔ سنسکرت میں ‘رہس’، کھیل کو، اور ‘منڈل’ سٹیج کو کہا جاتا ہے ۔ اس کھیل اور اس حوالے سے اس لفظ “رہس منڈل” کو اتنی قبولیت حاصل ہوئی کہ یہ اب ڈکشنری میں بھی موجود ہے اور واجد علی شاہ کے حوالے سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ ڈکشنری میں اس کا مطلب ہے:
” واجد علی شاہ کی ایجاد کردہ ناچ رنگ کی محفل جس میں راجہ اندر کا اکھاڑا جمتا تھا-“
ایک اوراہم اور انتہائی دلچسپ بات اس سلسلہ میں یہ بھی ہے کہ نواب واجد علی شاہ خود بھی اس “کھیل” میں کردار ادا کیا کرتے تھے۔ جب شاہی سرپرستی میں ڈرامہ ہونے لگا تو لوگوں کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوا اور ان کی جھجھک بھی دور ہوتی چلی گئی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جلد ہی بہت سے اردو ڈرامہ نگار بھی اس کی طرف مائل ہونے لگے۔ ’’اندر سبھا‘‘ نے اسٹیج کی دنیا میں دھوم مچا دی اور رہس، یعنی ڈرامہ یا تھئیٹرتیزی سے مقبول ہونے لگا۔
برٹش انڈیا میں مغربی اثرات بڑھے تو بہت سی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آ گئیں، جن کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے لکھنے والوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی۔ یہی تسلسل تھا جس میں ایک بڑا نام سٹیج کی دنیا میں نمودار ہوا اورجلد ہی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ وہ نام تھا آغاحشر کاشمیری کا نام۔
وہ مشہوراسی قلمی نام سے ہوئے لیکن ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ چودہ سال کی عمر میں بمبئی آئے اور وہاں پندرہ روپیہ ماہانہ معاوضہ پر’الفریڈ تھیٹریکل کمپنی’ میں ملازمت کرلی۔ لیکن، جوں ہی ان کا پہلا کھیل مقبول ہوا، کمپنی نے ان کی تنخواہ بڑھا کر فوراً ہی چالیس روپیہ کردی۔