اس سال فرانس میں منعقد ہونے والے کانز فلم فیسٹیول کو پاکستان کے لوگوں نے کچھ زیادہ ہی توجہ سے دیکھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ یہ یورپ کا فلموں کا ایک بہت بڑا میلہ تھا، بلکہ شاید اس لئے کہ اس بار اس میں نہ صرف یہ کہ ایک “پاکستانی فلم” بھی شامل تھی بلکہ اس فلم کو انعام کا حق دار بھی سمجھا گیا۔
ایک موقر پاکستانی روزنامہ میں چھپنے والے ایک مضمون میں اس فیسٹیول میں شامل کی جانے والی فلموں کے انتخاب کے پیمانے اور انھیں پرکھنے کےمعیار پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ مثلا” اس فلمی میلے میں ایران کی جس فلم کو منتخب کیا گیا ہے وہ اپنے ملک میں متنازعہ ہے۔ تاثر یہ ملتا ہے کہ شاید اس فلم کا انتخاب ہی اسی لئے کئے گیا کہ اسے ایران کے معاشرے میں قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔
یہ احساس اس وقت اور بھی زیادہ قوی ہوجاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کانز کے میلے نے پاکستان کی جس مختصر فلم کو قبولیت بخشی اور ایک خصوصی انعام کا مستحق قرار دیا ، وہ فلم بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے پاکستان میں متنازعہ سمجھی جاتی ہے۔ انعام کے لئے صرف موضوع کا چونکا دینے والا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جس فلم کو اعزاز دیا جارہا ہے، تخلیقی اعتبار سےاس فلم کی کیا اہمیت ہے؟ لیکن عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ متنازعہ موضوعات پر بنی یا پروپیگنڈا کرنے کی غرض سے بنائی جانے والی فلموں کو ہی مغرب میں پزیرائی ملتی ہے۔ لیکن جب معاشرے کی برائی ان کے اپنے معاشرے کی ہو تو وہ اس سے چشم پوشی کرتے نظر آتے ہیں۔
اس لئے میڈیا میں بڑا چرچا رہا یوکرائن سے تعلق رکھنے والی ان ‘خاتون’ کا جو برہنہ حالت میں احتجاج کرتی ہوئی ریڈ کارپیٹ پر آگئیں ۔ احتجاج وہ یہ کر رہی تھیں کہ یوکرائن کی جنگ میں ، بقول انکے روسی فوجی یوکرائن کی خواتین کا جنسی استحصال کر رہے ہیں ۔ اس مبینہ بے حیائی اور استحصال کو روکنے کے لئے وہ وہاں موجود سینکڑوں لوگوں کے سامنے بے لباس ہوگئی تھیں۔ جانے کیوں منتظمیں نے انھیں اس ‘نیک مقصد’ کے لئے آواز اٹھانے سے روک دیا ، اور فورا” منظر سے ہٹا دیا گیا؟ انکے معاشرے کی یہ حقیقت لوگوں کے لئے ناقابل دید کیوں ہے؟ وہاں اکثر خواتین برہنہ ہو ہو کر اپنے مسائیل کی جانب توجہ کیوں دلاتی ہیں۔ مرد و زن برہنہ ہوکر کھیل کے میدانوں میں کیوں دوڑ پڑتے ہیں، ان کے ذہن اور اپنے معاشرے کے ان تاریک گوشوں پر فلمیں کیوں نہیں بناتے؟ سوال تو کئی کئے جاسکتے ہیں ۔
پاکستان کی فلم ‘جوائے لینڈ’ کے ہدایت کار صائم صادق اپنی فلم کے فنکاروں کے ساتھ میلے میں شریک ہوئے۔ ان فنکاروں میں ثانیہ سعید، ثروت گیلانی، راستی فاروق، علینا خان، علی جونیجو، سلمان پیرزادہ، سہیل سمیر وغیرہ شامل تھے۔ اس فلم کو ایک خصوصی اعزازدیا گیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس فلم کو اعزاز صرف اس لئے دیا گیا کہ’ فلم کا مرکزی کردار ایک مخنث مرد ہے، جس سے ایک شادی شدہ شخص کو محبت ہوجاتی ہے۔’
اب آئیے اس لغو موضوع پر بننے والی اس فلم کے ایک انتہائی سنجیدہ پہلو کی جانب۔ نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ اس مختصر دورانیہ کی فلم کے کل 18پروڈیوسر ہیں۔ان میں سے 14غیر ملکی ہیں — جن میں سے کئی بھارتی شہری ہیں۔ ایک چھوٹی سی فلم کے لئے 18پروڈیوسرز کا جواز سمجھ سے بالا تر ہے۔ اور یہ بھی، کہ ایساکیا ہے کہ ان کی بھی اکثریت غیر پاکستانی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ سینماٹوگرافی سمیت فلم کا تمام تر ٹکنیکل اسٹاف، سب کے سب، غیر ملکی کیوں ہیں۔ پھر اس ساری کوشش میں ایسا کیا بچتا ہے جس کی وجہ سے اس پر “پاکستانی” ہونے کا الزام لگایا جاسکتا ہے؟
اگر اسے پھر بھی ایک پاکستانی فلم تسلیم کرلیا جائے تو اس کا موضوع کسی بھی طور پاکستان کے سماجی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار دیگرمسائل ایسے ہیں جن کو موضوع بنانے کی ضرارت ہے۔ لیکن ایک بھیڑ چال ایسی چل پڑی ہے کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مخصوص قسم کے ایسے متنازعہ موضوعات پر فلمیں بنائی جائیں جن سے پاکستانی ، بلکہ مسلمان معاشرے کے تاریک پہلوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔
امریکہ میں رہنے والی شرمین عبید چنائے کی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلموں کے موضوعات تو آپ کو یاد ہی ہوں گی؟ کچھ ایسا ہی ملتا جلتا احوال صائم صادق کی اس فلم کا بھی لگتا ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان سے کانز فلم فیسٹیول میں فلمیں بھیجی گئی ہیں مگر ان کا بہت زیادہ تذکرہ نہیں ہوگا۔ اس لئےکہ شاید ان فلموں کے موضوعات میں اپنے ہی معاشرے کے لئے اتنی بے باکی – دریدہ دہنی نظر نہ آئی ہو کہ اسے مغرب قابل توجہ سمجھتا۔ کوئی چونکا دینے والی چیز ہی انھیں متوجہ کرتی ہے۔