اسلام آباد : پنجاب میں الیکشن نظرثانی درخواست پر سماعت ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مبنی تین رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب میں انتخابات سے متعلق نظر ثانی درخواست پر سماعت کے دوران کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے چار سال رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کب تک انتخابات آگے کر کے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی، ملک کو کئی سال نتائج بھگتنا پڑے
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں۔ ہمیں بتائیں آپ کا اصل نقطہ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کےرولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کر سکتے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا توہین عدالت کے کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا تھا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جا سکتا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے۔ کم ازکم ٹارگٹ کر کے فائر کریں پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔‘
جسٹس منیب نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کر دیا ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات کے لیے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ’اگر صوبائی اسمبلی چھ ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے چار سال نگراں حکومت ہی رہے گی؟، ساڑھے چار سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟‘
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے چار سال کے لیے نئی منتخب حکومت آ سکتی ہے۔
’آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے چار سال رہے۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آئین کی منشا منتخب حکومتیں اور جہموریت ہی ہے، منتحب حکومت ہی ملک چلا سکتی ہے۔