جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے
چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گھل گئے
گلزار پھولے آنکھوں میں اور عیش تل گئے
دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کے ڈھل گئے
چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کھل گئے
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
style=”display:none;”>