اسلام آباد ( خصوصی رپورٹ) چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا حکم درست نہیں، اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو اس میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہوئی۔
عمران خان کی جانب سے وکیل لطیف نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر لطیف کے خلاف عدم اعتماد کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ نے 4 اگست کو آپ کی درخواستوں پر فیصلہ کر دیا، 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیشن عدالت کے خلاف کوئی حکم امتناع نہیں تھا، اس نے فیصلہ ہی کرنا تھا۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون میں پھر 120 دن کی حد کیوں دی گئی ہے؟ کیا ساری عمر یہ تلوار لٹکتی رہے گی؟ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا قانون میں لکھا ہے جب ڈکلیئریشن کا جھوٹا ہونے کا پتہ چلے گا اس کے 120 دن تک شکایت درج ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 800 سے زیادہ ارکان ہیں، الیکشن کمیشن سینکڑوں ارکان اسمبلی کے اثاثوں کا جائزہ 120 دن میں تو نہیں لے سکتا، 120 دن کب شروع ہوں گے اس کے لیے مائنڈ اپلائی کرنا پڑتا ہے، 5 اگست کو اپیل کا فیصلہ ہو گیا، آپ نے چیلنج بھی کر دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کو تعصب کیساتھ ٹرائل کی تیز رفتاری پر بھی اعتراض تھا، اگر کوئی فیصلہ غلط ہے اس میں مداخلت کر سکتے ہیں، سپریم کورٹ یہاں ہر جج کے تحفظ کے لیے بیٹھی ہے، سپریم کورٹ کے جج سے لےکر ماتحت عدالت تک ہر جج کی عزت برابر ہے۔ایڈیشنل ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے عدالت میں کہا کہ جو بھی نکات درخواست گزار نے اٹھائے ان پر سیشن کورٹ فیصلہ سنا چکی، ہائیکورٹ میں کل مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ توشہ خانہ کیس ایک سے دوسری عدالت میں یوں نہیں آنا چاہیے تھا، عدالتوں کی ایک ترتیب ہے، دوسری بار توشہ خانہ کیس سپریم کورٹ آیا ہے، بہتر ہو گا پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کرے، ہائیکورٹ نے 4 اگست کے فیصلے میں توشہ خانہ کیس سے متعلق سوالات کی فہرست ٹرائل کورٹ بھیجی تھی، کیا ٹرائل کورٹ نے ہائی جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کسی بھی ملزم سے گواہان پیش کرنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا، ہائیکورٹ کے آرڈر کے اگلے ہی دن کیس کا فیصلہ کر دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کل صبح اس کیس کو سنے، سپریم کورٹ دوپہر ایک بجے سماعت کرے گی، عدالت نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل دن 2 بجے تک ملتوی کر دی۔
کورٹ کے سوالات پر فیصلہ کیا؟