اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ایک ساتھ انتخابات کیس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے،90 روز میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے،کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا موقف سنا،مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی،عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے،آئین کے مطابق عمل کرانے کیلئے آئین کو ہی استعمال کر سکتے ہیں،عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے،کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا،عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا،غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج خواجہ سعد رفیق اور شاہ محمود قریشی دونوں نظر آرہے ہیں، آج اپنے حوالے سے بھی کچھ بتانا ہے۔
نجی نیوز چینل کے مطابق سپریم کورٹ میں انتخابات ایک دن کرانے کے کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی،بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان عدالت میں موجود ہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سپریم کورٹ میں آج سعد رفیق اور شاہ محمود قریشی دونوں نظر آ رہے ہیں،آج اپنے حوالے سے بھی کچھ بتانا ہے۔فاروق نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ قرضوں میں78 فیصد، سرکولر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہو چکا ہے،سیلاب کے باعث31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا،اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ، ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے،لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا،اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا،ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے،ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہئیں،سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں،ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے،مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہو سکتی،مذاکرات کیلئے مزید وقت درکار ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیاہے،عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں،سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے،آئی ایم ایف معاہدہ، ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بجٹ کیلئے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے،اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہو سکے گا،پنجاب، کے پی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو بحران نہ آتا،بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے،افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہو جائے تو بحرانوں سے نجات مل جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائر میں استعمال ہو گا یا قرضوں کی ادائیگی میں ؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کیلئے آئین4 ماہ کا وقت دیتا ہے، کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد دینگے،کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا ردکیا؟آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ 90 روز میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے،90 روز میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے،کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا موقف سنا،مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی،عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے،آئین کے مطابق عمل کرانے کیلئے آئین کو ہی استعمال کر سکتے ہیں،عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے،کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا،عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا،غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔