جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انسداد پرتشدد انتہاپسندی کا بل سییٹ میں پاکستان ڈیموکریکٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت پیش کر رہی ہے، حکومت کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس کو کمیٹی بھیجنے، اس پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اسی وقت اس کو پاس کر لیں گے، یہ ایک بہت ہی خوفناک بل ہے جس سے پرتشد انتہاپسندی ختم نہیں ہو گی بلکہ بڑھے گی، بل کے سیکشن 5 اور سیکشن 6 ڈریکونین (خوفناک) ہیں، یہ محظ پاکستان تحریک انصف پر پابندی کا بل ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت کو ریاستی جبر کے ذریعے مائنس کرنے، ختم کرنے کی کوشش غلط ہے، اس سے آئندہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں، لیڈرشپ کو مقابلے کا یکساں میدان ملنا اور صاف شفاف انعقاد بھی مشکوک ہو جاتا ہے، حکومت اس بل کو ہر صورت میں کمیٹی بھیجے اور قواعد و ضوابط کو پامال نہ کرے، پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ، انگوٹھا چھاپ اور بےکار نہ بنائیں۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ یہ اتنا اہم بل ہے اس سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر فرق پڑ سکتا ہے، لگتا ہے کہ یہ تحریک انصاف کو عام انتخابات میں روکنے کا بل ہے، مجھے اس بل سے یہی بو آ رہی ہے۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے اتحاد کے تمام بڑے فیصلےن لیگ اور پیپلزپارٹی کر رہی ہے، یہ بل جمہوریت کے خلاف ہے، کسی جماعت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، یہ بل جمہوریت پر کھلا حملہ ہے، ہم اس بل کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اگر بل منظور کیا گیا تو ایوان سے واک آؤٹ کروں گا۔
حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ انتہائی اہم بل پیش کیے جا رہے ہیں، پپرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل 2023ء اہمیت کا حامل ہے، اس بل کو پاس کرنے سے پہلے کمیٹی میں پیش کرنا چاہیے تھا، کل کو کوئی بھی اس بل کا شکار ہو سکتا ہے، ابھی جلد بازی میں بل پاس ہو رہا ہے اور کل کہا جائے گا کہ بل پاس ہو رہا تھا تو آپ کہاں تھے۔ چیئرمین سینیٹ ے پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کا بل دوبارہ ایوان میں لانے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل موخر کردیا ہے تاکہ اگلے ورکنگ ڈے پر اس کو لے آئیں، ایسا نہ کہیں کہ چھٹی کے دن اسی لیے اجلاس بلایا گیا، صرف اس لیے بل موخر کیا ہے تاکہ موقع نہ دیں ان لوگوں کو بات کرنے کا، ورکنگ ڈے پر لے آئیں گے بل کوئی بات نہیں، اجلاس بل کے لیے نہیں بلکہ ایوان کے دن پورے کرنے کے لیے بلایا تھا، حکومت اس بل کو ڈراپ کرے نہ کرے، میں ڈراپ کرتا ہوں، بعد ازاں چیئر مین سینٹ نے پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل 2023ء ڈراپ کر دیا۔
معلوم ہوا ہے کہ پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہاپسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہے، پرتشدد انتہاپسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا ہے جو پرتشد انتہاپسند ہو، پرتشد انتہا پسندی میں دوسرے کو طاقت کے استعمال، تشدد اور دشمنی کے لیے اکسانا شامل ہے۔
بل کے مطابق شیڈیول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا پرتشدد انتہاپسندی ہے، پرتشد انتہاپسندی کی تعریف کرنا اور اس مقصد کے لیے معلومات پھیلانا پرتشدد انتہاپسندی میں شامل ہے۔ اگر حکومت مطمئن ہو کہ کوئی شخص یا تنظیم پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہے تو اسے لسٹ ون اور ٹو میں شامل کیا جا سکتا ہے، لسٹ ون میں وہ تنظیم ہوگی جو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہے، جس کا سربراہ خود پرتشدد ہو، یا تنظیم نام بدل کر دوبارہ منظر عام پر آئی ہو، لسٹ ٹو میں ایسا شخص شامل ہے جو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہو، پرتشدد ادارے کا لیڈر یا حصہ ہو، پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرتا ہو، حکومت پرتشدد فرد اور پرتشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی عائد کرے گی، حکومت پرتشد فرد یا تنظیم کے لیڈر یا فرد کی پاکستان کے اندر نقل و حرکت یا باہر جانے پر پابندی عائد کرے گی، حکومت پرتشدد تنظیم کے اثاثے کی چھان بین کرے گی، حکومت پرتشد تنظیم کے لیڈر، عہدیدار اور ممبران کی سرگرمیوں کی نگرانی کرے گی، حکومت پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداران، ممبران کا پاسپورٹ ضبط کرے گی، انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں ہوگی، پرتشدد تنظیم کے لیڈر ، عہدیدارن ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا، پرتشدد تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے۔
بل کہتا ہے کہ پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہوگی، کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر، ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔حکومت پرتشدد فرد کو علاقہ چھوڑنے یا علاقے میں رہنے کی ہدایت کرے گی، حکومت پرتشدد شخص اور اہل خانہ، بہن بھائی ، رشتہ داروں کے اثاثوں کی چھان بین کرے گی اور پرتشدد شخص کی مانیٹرنگ کی جائے گی، حکومت متعلقہ شخص کو ڈی ریڈیکلائزیشن کی تربیت دے گی، پرتشد شخص کا پاسپورٹ ضبط کر لیا جائے گا، بیرون ملک سفر کی اجازت نہ ہوگی، پرتشدد شخص کا اسلحہ لائسنس منسوخ کردیا جائے گا، پرتشدد شخص کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے، کوئی مالیاتی ادارہ قرض نہیں دے گا، پرتشدد شخص کو کسی بھی سطح پر الیشکن لڑنے کی اجازت نہ ہو گی، حکومت پرتشدد تنظیم یا ادارے کے رویے کو دیکھ کر اسے لسٹ ون یا ٹو سے نکالنے کا دوبارہ جائزہ لے سکتی ہے، متاثرہ تنظیم یا فرد 30 ایام کے اندر جائزہ کمیٹی کے سامنے درخواست دائر کرے گا، درخواست مسترد ہونے پر ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوگی، متعلقہ محکمہ کسی بھی وقت فرد یا تنظیم کو لسٹ سے نکال سکتا ہے، ڈی لسٹ ہونے کے بعد فرد یا تنظیم کو چھ ماہ تک زیر مشاہدہ رکھا جائے گا، وقت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔
بل میں کہا گیا کہ حکومت پرتشدد افراد کی بحالی اور ڈی ریڈیکلائزیشن کے لیے ڈی ریڈیکلائزیشن سینٹر قائم کرے گی، حکومت پرشدد انتہاپسندی کے مقابلے کا ریسرچ سینٹر قائم کرے گی، تعلیمی ادارے پرتشدد انتہاپسندی کے اقدام کی حکومت کو فوری اطلاع دیں گے، تعلیمی ادارے کسی شخص کو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہونے یا اس کی پرچار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اہل خانہ کو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہونے دے گا، پرتشدد انتہاپسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری اتار دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے گا، قابل سزا جرم سیشن کورٹ کے ذریعے قابل سماعت ہوگا۔
جرم ناقابل ضمانت اور قابل ادراک ہو گا، معاملہ کی پولیس ا کوئی اور ادارہ تحقیقات اور انکوائری کرے گا، پرتشدد انتہاپسندی کے مرتکب شخص کو تین سے دس سال تک سزا اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ایک سے پانچ سال تک قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث تنظیم کو پچاس لاکھ روپے جرمانہ ہو گا اور تنظیم تحلیل کر دی جائے۔
بل کے متن سے معلوم ہوا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو بیس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے، معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی دس سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔بل میں کہا گیا کہ جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہوگا، حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، حکومت لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کرکے نوے روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، مدت میں بارہ ماہ تک توسیع ہو سکتی ہے، متاثرہ شخص کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔
دریں اثناء سینیٹ اجلاس کے دور ان توشہ خانہ(انضباط و مینجمنٹ) بل 2023 کی منظوری دیدی گئی، اجلاس کے دور ان وزیر مملکت برائے قانون و انصاف سینیٹر شہادت اعوان نے تحریک پیش کی کہ توشہ خانہ کے انضباط اور مینجمنٹ کے لئے قانون وضع کرنے کا بل توشہ خانہ(انضباط و مینجمنٹ) بل 2023 قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لایا جائے، ایوان سے تحریک کی منظوری کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل ایوان میں شق وار منظوری کے لئے پیش کیا جس کی ایوان نے منظور دیدی۔