پیٹرول کی قیمت میں اضافے پر عوام کا سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے اور بعض مقامات پر ٹرانسپورٹرز اور مسافروں کے درمیان کرایوں میں اضافے پر تکرار اور ہاتھا پائی کے واقعات کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے جمعرات کی شب پٹرول کی قیمت میں 30 روپئے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا تھا اور اس طرح ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں فی لیٹر 60 روپئے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس ناقابل برداشت اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان آ گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہےکہ حکومت اب بھی پیٹرول پر 8 روپے سبسڈی دے رہی ہے اور 23 روپےکا نقصان ڈیزل میں رہ گیا ہے، 10 تاریخ کو بجٹ میں کافی معاملات سمٹ جائیں گے۔
پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنی کاریں کھڑی کر دی ہیں اور دستیاب پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا شروع کر دیا ہے لیکن دوسری طرف ملک بھر میں ٹرانسپورٹروں نے اپنے طور پر کرائے بڑھا لئے ہیں۔ من مانے اضافے کی وجہ سے مسافروں اور ٹرانسپورٹروں میں جگہ جگہ تکرار کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
ادھر سبزی دودھ اور عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں بھی پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے اعلان کے ساتھ ہی اضافہ ہو گیا ہے۔
ایک نجی چینل کا دعوی ہے کہ کراچی کے ایک پٹرول پمپ پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تشدد کا واقعہ بھی ہوا ہے۔
وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پرپیٹرولیم مصنوعات اوربجلی کی قیمتیں بڑھائی ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے مطابق پٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سب سڈی کے خاتمے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھانے پر عمل درآمد کرنے کی شرط عائد کر رکھی تھی تاکہ وہ قرض کی اگلے قسط جاری کر سکے۔ پاکستان کے دوست ممالک نے بھی امداد دینے کے لئے یہی شرط لگائی ہے کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں بیک وقت بڑھنے سے ملک کا زراعت کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ کسان ان ٹریکٹر، ٹیوب ویل اور دوسری زرعی مشینری کا نہیں چلا سکیں اور ان کی لاگت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
ایک طرف سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ لادا گیا ہے مگر دوسری طرف پاکستان کی سول و ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ اور ارکان اسمبلی کو حاصل مفت تیل کی فراہمی پر کوئی کٹوتی نہیں کی گئی جس سے عوام میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اب یہ مطالبہ دہرایا جا رہا ہے کہ ملک کی اشرافیہ بھی مہنگائی کے اس دور میں قربانی دے۔
style=”display:none;”>