نوٹ: صدر مملکت نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے:
میری آپ سے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل کالم ضرور پڑھیں۔ شاید میری زندگی کا اہم ترین مضمون ہے یہ۔
٭٭٭
اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا سیاست میں میری دلچسپی فطرت یا پھر میری پرورش (تجربات) کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ میرے والد متحدہ ہندوستان میں نینی تال مسلم لیگ کے صدر تھے ۔ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد انہیں’ریاست مخالف‘ سرگرمیوں کے من گھڑت الزامات کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا اور انہوں نے چھ ماہ جیل میں گزارے ۔ جب میری والدہ نے جواہر لعل نہرو (جومیرے والد کے مریض تھے) کو خط لکھا تو انہیں رہا کردیا گیا۔
میری زندگی کی سب سے پرانی یاد تین برس کی عمر کی ہے۔اس وقت ہم اپنے والد کے کلینک میں رہتے تھے جو کراچی میں پیراڈائز سینما کے سامنے وکٹوریہ روڈ پر واقع تھا۔ 9 جنوری 1953 ء کو طلبہ سڑک پر احتجاج کر رہے تھے کہ اچانک ہنگامہ برپا ہوا اور گولیاں چل گئیں۔ میرے والد (اور میں ان کی ٹانگوں کے درمیان سے ) بالکنی سے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ آنسو گیس کے شیل داغے گئے اور اس کے فوراً بعد سیدھی گولیاں بھی چلائی گئیں۔ مجھے سڑک پر پڑی ایک لاش آج بھی یاد ہے۔ ایک انسپکٹر نے میرے والد کو خبردار کرتے ہوئے اندر جانے کو کہا۔ مجھے بس اتنا ہی یاد ہے۔ اس واقعے پر آج جب غور کریں تو یہ دھونس اور زبردستی کی وہ داستان ہے جو ہماری پوری تاریخ میں بار بار دہرائی گئی ۔
اسی دوران، وزیر ِداخلہ مشتاق گرمانی کی جھنڈے والی گاڑی احتجاج کرنے والے طلباء کو ایک طرف دھکیل رہی تھی۔ عین اس وقت فائرنگ شروع ہو گئی۔ آنسو گیس کی وجہ سے گرمانی بے ہوش ہوگئے اور انہیں اٹھا کر لے جایا گیا۔ 26 طلباء کو انتہائی افسوسناک اور مجرمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ سب سے پہلے اپنی جان گنوانے والا ایک نوجوان بوائے سکاؤٹ، نین سکھ لال تھا، جو کہ گولی سے زخمی ہونے والے ایک طالب علم کی مدد کر رہا تھا۔ بعد ازاں، پورا شہر احتجاج پر اتر آیا اور نظام ِزندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ گرمانی کی گاڑی سمیت سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ بعد میں ہونے والے مذاکرات کے دوران حکومتی درخواست کی بجائے طالبِ علم رہنما کاظم کی اپیل پر امن بحال ہوا۔ کیا ہم نے اس واقعے سے کچھ سیکھا؟
اگلے سال 1954 ء میں جانبحق ہونے والوں کی یاد میں کترک ہال میں ایک کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ اے کے بروہی جو کہ اس وقت وزیر تھے اس کنونشن سے خطاب کرنے والے تھے۔ گرمانی ایک سال قبل امن قائم کرنے والے مذاکرات کے مخالف تھے اور اپنی توہین محسوس کررہے تھے۔ ان کی انا انہیں انتقام لینے کیلئے تڑپا رہی تھی۔ جب اے کے بروہی موقع پر پہنچے تو سادہ کپڑوں میں ملبوس عام طلباء میں منصوبے کے تحت چھپے منظم غنڈوں نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی ۔ امن قائم کرنے کیلئے طلباء کی قیادت آج کے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے ڈاکٹر ادیب رضوی کر رہے تھے۔
جماعتوں اور رہنماؤں کو غدار اور ریاست مخالف قرار دینے کی ہماری طویل تاریخ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس سے شروع ہوتی ہے۔ اس سازش میں گرفتار ہونے والوں میں فیض احمد فیض، میجر جنرل اکبر خان، سجاد ظہیر اور کیپٹن ظفر اللہ پوشنی (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا اور انہوں نے ان دنوں کی یادداشتوں پر مبنی ایک بہترین کتاب ‘زندگی زنداں دلی کا نام ہے ‘ لکھی)شامل تھے۔ اِن کے خلاف کاروائی کرنے کیلئے ایک خصوصی قانون پاس کیا گیا۔ سب کو سزا سنائی گئی ، تاہم ، چار سال قید کے بعد انہیں اس وقت رہا کردیا گیا جب ایک اپیلٹ کورٹ نے ان الزامات کو مکمل طور پر جھوٹا قرار دے دیا۔ میں فیض صاحب اور اس وقت کے فوجی اہلکاروں کے غدار ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
میں 1965 ء میں فاطمہ جناح کی تدفین کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ فاطمہ جناح جب صدر ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑیں تو انہیں بطور امیدوار بدنام کیا گیا اور انہیں ریاست مخالف قرار دیا گیا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں میٹرک پاس نوجوان کے طور پر اپنے والد کے ہمراہ ان کے جنازے میں شریک تھا۔ وہاں ایک بہت بڑا ہجوم تھا۔ چند افراد کی نعرے بازی کی وجہ سے پُرامن ہجوم کے عین مرکز میں آنسو گیس فائر کی گئی جس کی وجہ سے ہجوم متشدد ہوگیا۔ ہم نے اس واقعے سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔
اگرتلہ سازش کیس کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کو غدار ٹھہرایا گیا۔ ایوب خان نے انہیں 1969ء میں گول میز کانفرنس میں مدعو کرنے سے انکار کر دیا مگر حزب ِ اختلاف کے اصرار پر ایوب خان نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ یہ کانفرنس سیاست دانوں کے کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکامی کی وجہ سے چند ہی دنوں میں ختم ہوگئی۔ تاہم ، مشرقی پاکستان کے بہت سے سیاستدانوں کو غدار ٹھہرادیا گیا اور باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ آپ ہماری بےچارگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب زور زبردستی کو ناکامی اٹھانا پڑی تو شہید ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب کی رہائی سے پہلے ان سے جیل میں ملنے گئے اور ایک کنفیڈریشن قائم کرنے پر غور کرنے کا کہا۔
1975 ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے حیدر آباد سازش کیس بنایا اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ نیپ کی پوری قیادت بشمول ولی خان، بزنجو، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری، نجم سیٹھی اور حبیب جالب کو گرفتار کرکے غداری کے مقدمے چلائے گئے۔ تیسری ترمیم عجلت میں منظور کی گئی تاکہ ریاست مخالف سرگرمیوں کی تعریف کو وسیع کیا جا سکے۔ مجھے یاد ہے کہ غداری کے ان الزامات پر ولی خان نے حب الوطنی پر مبنی 40 صفحات کا ایک بہترین جواب پیش کیا۔ کیا یہ سب لوگ غدار تھے؟ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جولائی 1977 ء میں سیاست دانوں کی جانب سے نتیجہ خیز مذاکرات میں ناکامی کو 11 سالہ طویل اور ہر لحاظ سے تکلیف دہ قبضے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا۔
ہماری سیاسی تاریخ میں بہت سے تجربات کیے گئے اور بہت سے قلابازیاں کھائی گئیں۔ مثلاً، سیاسی جماعتوں کی ‘تخلیق’ کرنا، پھر ان کا تریاق تیار کرنا، پھر اُسے ختم کرنا، پھر ‘پاکستان نواز’ متبادل لانا ، پھر اسے بھی تباہ کرنا، دباؤ ڈالنا ، پھر افہام و تفہیم اور پھر مصالحت کرنا ۔ یہ تمام پالیسیاں ایک سنجیدہ، وسیع البنیاد ، جامع اور تزویراتی عمل کی بجائے مقتدر لوگوں کی سوچ پر مبنی تھیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم یہاں سے کس سمت میں جائیں؟ میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ ٹھنڈے اور گہرے سانس لیں۔ میں نے چونکہ تجربے اور تاریخ دونوں سے سیکھا ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ آج کی کوئی بھی سیاسی جماعت کبھی بھی پاکستان مخالف نہیں رہی اور نہ ہی وہ غداروں پر مشتمل ہے۔مایوسی اور محرومیوں کی وجہ سے ہماری تاریخ میں سب کی جانب سے زیادتیاں کی گئیں اور اس میں تحریک ِ بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) بھی شامل ہے۔ جب تمام راستے بند ہو جائیں تو پھر مختلف طریقوں سے غصہ ظاہر کرنا ہی واحد راستہ نظر آتا ہے اور یہ قومی منظر نامے کو ایک مہلک سرخ رنگ میں رنگ دیتا ہے۔
میں تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتا ہوں کہ وہ ‘دوبارہ سوچیں’۔ میں بہت سے لوگوں کو ایڈم گرانٹ کی اسی عنوان پر ایک کتاب تحفے میں بھی دے چکا ہوں۔ موجودہ دور کی ایک شاندار مثال ایران اور سعودی عرب کے درمیان قائم ہونے والا غیرمعمولی امن ہے۔ یہ ان کی قیادت کی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس پر محمد بن سلمان ، ایرانی قیادت اور ہمارا دوست چین قابل تعریف ہیں۔ یہ اقدام ان عظیم رہنماؤں کی سوچ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ لوگ دہائیوں پرانی دشمنی ختم کرنے پر تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔
کیا ہماری قیادت بھی ایسی ہی عظمت کا مظاہرہ کر سکتی ہے؟ میں مقتدرہ اور سیاسی حلقوں میں اس قابل بہت سے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔ تاہم ، روزمرہ کے واقعات اور ان کے درمیان سخت بیان بازی اُن کی سوچ کو دھندلا دیتی ہے۔ یہاں تک کہ غیر حقیقت پسندانہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ ‘آپ پاکستان کے ساتھ ہیں یا پاکستان کے خلاف؟’
ہمارے بزرگ سب سے پہلے اور آخر میں جو بات کرتے ہیں وہ یہ ہوتی ہے کہ تحمل کا مظاہرہ کرو، ماضی سے سیکھو، اور خاندان کو بچاؤ۔ ہمارے دوست ملک بھی ہمیں یہی تاکید کر رہے ہیں۔ وہ قومیں عظمت حاصل کرتی ہیں جو تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں اور جو ایسا نہیں کرتیں وہ وقت کی ریت میں ذروں کی طرح فراموش کر دی جاتی ہیں۔ میں سب پر زور دیتا رہا ہوں کہ ہمیں موجودہ صورتحال کا حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ بہتر روش ہی غالب ہوگی اور ہم در گزر کے ساتھ اپنے تنازعات کو حل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے اور بہت سے سنہری باب لکھنے ہیں۔ پاکستان پائندہ باد !
٭٭٭