سی پی جے اور ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ پاکستان میں 1992 سے اب تک 96 صحافیوں کو قتل کیا گیا؛ پاکستان میں صحافیوں پر بغاوت اور غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
صدر مملکت نے وزیر اعظم سے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 46 کے تحت انہیں اصلاحی اقدامات سے آگاہ رکھیں۔
اس رپورٹ کا بڑا حصہ ‘ڈان اردو’ میں چھپی نوید صدیقی کی ایک تحریر سے مستعار ہے
جیسا کہ ہم نے کل رپورٹ کیا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور خاتون اول بیگم ثمینہ عارف علوی جب پاکستان کے اس بے باک، نڈر اور صاف گو صحافی اور ٹاک شوز کے ایک بے حد مقبول میزبان، ارشد شریف کی والدہ اور ان کی اہلیہ سے اظہار تعزیت کے لئے مرحوم کے گھرپہنچے تو جانے کتنے دل ایک بار پھر بھر آئے اورہر دیکھنے والے کی آنکھیں ایک بار پھر اشک بار ہوگئیں۔
صدر مملکت نے ان کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت بھی کی ۔ انہوں نے ارشد شریف کے اس بیہمانہ قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اہل خانہ کو بتایا کہ اس ملک کے لوگ انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے اس لئے کہ مرحوم ارشد شریف کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
صدر مملکت نے ارشد شریف کی والدہ کے سوال پر کہ حکومت نے ان کی اور صحافیوں کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات اٹھائے تھے تو صدر مملکت نے بتایا کہ ارشد شریف مرحوم نے انہیں ایک بہت طویل خط لکھا تھا ۔ جس کی بنیاد پر صدر مملکت نے وزیر اعظم کو ایک تفصیلی خط بھیجا ، جس میں میں نے انہیں ارشد کی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔ اس کے بعد ان کی وزیر اعظم سے اس موضوع پر بات نہیں ہوئی اور انہیں اس خط کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
صدرمملکت کی ارشد کی والدہ سے گفتگو کی آڈیو کلپ ٹوئٹر پر موجود ہے:
اس ماں کی بات سنیں اس بیٹی کا سوال سنیں اور صدر پاکستان کی بےبسی دیکھیں ۔ اس ملک میں ہمیں کسی بڑے سانحے کا جواب نہیں ملا مجھے اب بھی امید نہیں ۔ pic.twitter.com/jiOcZl0pZ0
— Tariq Mateen (@tariqmateen) October 25, 2022
صدر مملکت کے اس خط کی تفصیل تقریباً تمام اخباروں میں شائع ہوئی۔
۷ جولائی ۲۰۲۲ کو میڈیا نے خبر دی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے جس میں انھوں نے پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات معاشرے میں موجود عدم برداشت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ڈان اردو کی رپورٹ کے مطابق، صدر نے صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی (سی پی جے) اور ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹس کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان میں 1992 سے 2022 تک 96 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور الزام لگایا گیا کہ پاکستان میں صحافیوں پر بغاوت اور غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
صدر مملکت نے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 19 میں دی گئی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اس طرح کے واقعات معاشرے میں موجود عدم برداشت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں، اس طرح کے اقدامات دنیا کی نظروں میں آکر ہمارے ملک کی ساکھ اور اس کے تشخص کو داغدار کرتے ہیں۔
انہوں نے خط میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان فریڈم آف پریس انڈیکس 2022 میں 157ویں نمبر پر ہے جو بہت پست اور نچلی سطح ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف)، ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو)، ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی) اور انٹرنیشنل کمیشن جیورسٹس (آئی سی جے) نے اپنی رپورٹس میں صحافیوں کو ہراساں کرنا، دھمکیاں دینا اور جسمانی تشدد کو مذکورہ انڈیکس میں پاکستان کی مایوس کن پوزیشن کی بنیادی وجوہات قرار دیا ہے۔
ریاست کے طاقتور عناصر کے خلاف اختلاف رائے اور تنقید کو دبانے کے لیے تشدد کے چند اہم واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر مملکت نے کراچی میں سماجی کارکن ناظم جوکھیو اور کے ٹی این اور روزنامہ کاوش کے صحافی عزیز میمن کا نام لیا، جنہیں سندھ میں ان کے آبائی شہر محراب پور، کے قریب ہی قتل کیا گیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے مصروف علاقے سے دن دیہاڑے اغوا کیا گیا، اسد علی طور اور ابصار عالم کو نامعلوم افراد نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اسی طرح لاہور میں کئی عینی شاہدین کی موجودگی میں کالم نگار ایاز امیر پر نامعلوم افراد نے رش کے اوقات میں سڑک پر حملہ کیا، ان کی تذلیل کی اور زخمی کر دیا اور اسی طرح سمیع ابراہیم، ارشد شریف، صابر شاکر، معید پیرزادہ اور عمران ریاض خان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔
صدر مملکت نے کہا ہے کہ معروف صحافیوں کے خلاف اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات سے عدلیہ کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ ایک دائرہ اختیار میں ریلیف فراہم کیا جاتا ہے تو دوسرے دائرہ اختیار میں ہراساں کرنے کی نیت سے مقدمات دائر کردیے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آزادانہ رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف دہشت کا راج ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ حکومتوں کے اقدامات یا بے عملی کو اسی طرح کی غیر قانونی خلاف ورزیوں کو دہرانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور اس طرح کے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لیے سابقہ حکومت کے کردار کا مؤقف ناقابل قبول اور عذر لنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں سے اس طرح کا منفی موازنہ کرنا ملک کو ترقی اور مثبت سمت میں لے جانے کے بجائے انتقامی کارروائیوں میں بد تری کا جواز بن جائے گا۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 41 کے مطابق صدر کو تمام شہریوں کے لیے آزادی اظہار اور منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے زور دیا کہ جمہوری ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں دانشوروں اور صحافیوں پر ظلم و ستم کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ عارف علوی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ صحافیوں اور میڈیا والوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور ساتھ ہی سیاست دان بھی صحافیوں کو نامعلوم اور بددیانت عناصر کے عتاب سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ انہیں آئین کے آرٹیکل 46 کے تحت ان کی جانب سے اٹھائے گئے اصلاحی اقدامات سے آگاہ رکھیں۔
— رپورٹ بشکریہ ‘ڈان اردو’
style=”display:none;”>