عوامی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کی تمام تر توجہ اس وقت عمران خان پر مرکوز ہے ۔ حکومت، عمران کی زندگی ، آزادی کو اپنی موت سمجھے بیٹھی ہے اس لئے اس کا تمام تر وقت اور قوت اپنی جان بچانے پر صرف بلکہ ضائع ہو رہا ہے
حکومت کے زیر اثر انتظامیہ بھی اس وقت اپنے تمام تر فرائض سے عہدہ برا ہو کر عمران خان ، پارٹی لیڈرز اور پی ٹی آئی کے حمایتیوں سے نمٹنے میں مصروف ہے
ملک بھر کی پولیس باقی تمام تر جرائم اور مجرموں سے صرف نظر کر کے صرف اور صرف پی ٹی آئی کے رہنماؤں ، ورکرز اور ہمدردوں کے ساتھ آنکھ مچولی اور ڈنڈا ڈولی میں مصروف ہے
عدلیہ بالخصوص اعلی عدلیہ کو عمران اینڈ کمپنی کے خلاف بنائے ہوئے مقدمات سننے سے فرصت نہیں۔ انہیں حکومت اور پی ٹی ائی نے برے طریقے سے اس کارِ بے کار میں الجھا رکھا ہے
پاک فوج کی ایک بڑی تعداد ، دس کمپنیاں اور رینجرز بھی بادل ناخواستہ اپنے ہی ملک کی سڑکوں پر مورچے بنائے حفاظتی ذمہ داریوں پر مامور ہیں ، اعلی قیادت بھی روز سر جوڑ کر بیٹھتی ہے اور اعلامیے پر اعلامیہ جاری کر رہی ہے
پارلیمنٹ نے بھی عمران خان اور چیف جسٹس کے خلاف طبلِ جنگ بجا رکھا ہے ، وفاقی وزرا اور اعلی حکومتی شخصیات کے صبح وشام بھی عمران کی لعنت ملامت اور چیف جسٹس کی مذمت میں روتے دھوتے گذر رہے ہیں
میڈیا اور میڈیا کے سرخیل بھی اپنی اپنی سیاسی وابستگی کے مطابق مخالفین پر گولہ باری اور حمایتیوں کے کئے دھرے کو دلائل کی ڈھال فراہم کر رہے ہیں ۔ تمام تر میڈیا سارا دن حکیم لقمان کے لہجے میں عقل و دانش کا چھڑکاؤ کرنے میں مگن ہے۔ کوئی عقل و برد باری کے مظاہرے کا درس دے رہا ہے تو کوئی مخالف کو ایک ہی داؤ میں چت کرنے کے آزمودہ نسخے بتا رہا ہے
سوشل میڈیا اس وقت ناسٹر ڈیمس بنا بیٹھا ہے ۔ علم نجوم کے ایسے ایسے جوہر دکھا رہا ہے کہ کچھ مت پوچھیں ۔ لیکن یہ نجومی ذرا مختلف ٹائپ کا ہے ، عام نجومی ہاتھ دیکھتا ہے لیکن یہ نجومی ساری قوم اور سسٹم کو ہاتھ دکھا رہا ہے۔
جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے وہ بھی دکھا رہا ہے اور جو کچھ نہیں ہو رہا وہ زیادہ شد و مد سے دکھا رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر پیش گوئی پر پیش گوئی ہو رہی ہے اور ہر پیش گوئی کے نتیجے میں قومی مورال نیچے سے نیچے جا رہا ہے
عوام کا حال کچھ مت پوچھیں وہ پہلے بھی کسی کھاتے میں نہیں تھے، اب بھی ان کا وہی حال ہے۔ ہاں اتنا فرق ضرور پڑا ہے پہلے انہیں کچھ امید تھی اب ہر امید دم توڑتی جا رہی ہے
پورا سسٹم ایک دلدل میں ہے ۔۔ یا شاید یہ سسٹم خود ہی ایک دلدل ہے۔
اس دلدل سے جو نکلنا بھی چاہتے ہیں انہیں بھی یہ دلدل اپنی فطرت کے مطابق اور اپنے اندر دھنسا رہی ہے
اس دلدل سے نکلنے کے لئے ایک سہارے ، ایک ہاتھ کی ضرورت ہے ، ایک مضبوط ہاتھ کی ، 23 کروڑ عوام کے ہاتھ کی
اگر سب بڑے ایک ساتھ بیٹھ جائیں ، بیٹھ کر کوئی منطقی فیصلہ کر لیں تو 23 کروڑ کا یہ ہاتھ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کو ہر قسم کی مشکلات اور مسائل کی دلدل سے نکال سکتا ہے
فیصلہ بڑوں کے ہاتھ میں ہے !