آپ سرخی پڑھ کے ہی سمجھ گئے ہوں گے کہ کس فلم کی بات ہو رہی ہے ، جی ہاں وہی جس کا نام سلمان خان کی فلم “ہم ساتھ ساتھ ہیں” سے متاثر ہو کر ” ہم تیرہ چودہ ہیں” رکھا گیا۔ لیکن اس کے بارے میں بات کرنے سے پہلے میں اس فلم کے بارے کچھ کہنا چاہتا ہوں جسے اتار کر ” ہم تیرہ چودہ ہیں” کو تھیٹرز کی زینت بنایا گیا تھا ۔ اتاری جانے والی فلم تقریبآ ساڑھے تین سال چلی تھی اور شاید تاریخ کی پہلی فلم تھی جس کا نام اتنا عرصہ چلنے کے باوجود بھی فائنل نہ ہو سکا۔ کپتان کے مخالفین کے دانست میں اس کا نام “چھوڑو نمبر ون” اور fans کے خیال میں اس فلم کا نام “کھلاڑی نمبر ون” رکھا جانا چاہئے۔
میری ذاتی رائے میں بننے اور لگنے کے عمل کے دوران یہ فلم 100 نہیں تو کم از کم 80 فیصد تک “کھلاڑی نمبر ون” ہی تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ دو ڈھائی سال میں یہ فلم 30 سے 40 یا شاید 50 فیصد عوام کی نظروں میں “چھوڑو نمبر ون” بن چکی تھی ۔ ایسا کیوں ہوا اس کے بارے دو متضاد بیانئیوں کا ڈھول پیٹا گیا ، پی ڈی ایم نے ملکی حالات، بیڈ گورننس اور مہنگائی کا رونا روتے ہوئے عمران کے بارے “ناچ نہ جانے” کا نعرہ لگایا ، جوابا ًپی ٹی آئی نے ریاستی اداروں خصوصاً پنڈی اور امریکہ پر “آنگن ٹیڑھا” کرنے کا الزام لگایا اور بڑے زور و شور سے گلی گلی اس کا پرچار شروع کر دیا. قصہ مختصر بالآخر ساڑھے تین سال بعد ، او میرے رشکِ قمر سے شروع ہونے والی یہ فلم میر جعفر ، میر صادق اور امریکی سائفر پر جا کے انجام پذیر ہوئی۔
سب سے پہلے فلم پنڈی کے تھیٹرز سے اتری اور یہ تو ہم سب کو ہی پتہ ہے کہ جو فلم پنڈی سے اتر جائے، وہ اسلام آباد میں بھی زیادہ دیر نہیں چلتی، سو وہی ہوا
ایسے میں logically نئی فلم ” ہم تیرہ چودہ ہیں” کو سپر ہٹ ، بلاک بسٹر ، کھڑکی توڑ ہونا چاہئے تھا لیکن ہوا بالکل اس کے برعکس ، ادھر یہ فلم لگی ادھر فارغ ہو گئی۔۔ چار ہی دن میں اس فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسرز پر عوامی دباؤ بڑھنے لگا کہ اس فلم کو اتار کر پھر وہی پچھلی فلم دوبارہ لگائی جائے ۔ عوامی سوچ کی تبدیلی میں کچھ کمال تو اتاری جانے والی فلم کے ایکٹرز کے طرف سے لگائے جانے والے دھواں دھار سٹریٹ تھیٹرز کا تھا لیکن زیادہ کمال نئی فلم کی غلط ٹائمنگ ، بے ربط اسکرپٹ ، بے ڈھنگی کاسٹنگ اور ضرورت سے زیادہ اور غلط مارکیٹنگ کا تھا۔
فلم کا ٹریلر مین سٹریم میڈیا پر دبا کر چلایا گیا لیکن جو کچھ ٹریلر میں دکھایا گیا وہ فلم میں سرے سے تھا ہی نہیں، سب سے پہلے تو جسے فلم کا ہیرو بتایا گیا وہ لندن ہی سے نہیں آیا ، دوسری خرابی یہ ہوئی کہ جن تیرہ چودہ کرداروں کو ساری عمر ایک دوسرے کے رقیبِ روسیاہ کے طور پر دیکھا ، سنا گیا، انہیں ایک دم سگے بھائی دکھا دیا گیا، چالیس سال سے جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اچانک ایک دوسرے پر جان چھڑکنے لگے ، جنہیں سڑکوں پر گھسیٹنا تھا ، انہیں گھسیٹ گھسیٹ کر سینے سے لگا لیا گیا، جن کا پیٹ پھاڑ کر چوری کا مال نکالنا تھا انہیں اپنے ہاتھوں سے کوٹ کوٹ کر چوری کھلائی جانے لگی، خلائی مخلوق اچانک ملائی مخلوق کی طرح ہضم ہو گئی. لوگوں کو ان سب کریکٹرز کے مزاج میں پیدا ہونے والی یہ اچانک اور غیر طبعی تبدیلی ہضم نہیں ہوئی، پھر ٹریلر میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ڈالر ، پٹرول سمیت تمام اشیاء کی قیمتیں کم ، یہاں تک کہ آدھی کر دی جائیں گی ،ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی جائیں گی ، الغرض کپتان جائے گا تو آرام آئے گا لیکن فلم شروع ہوئی تو لوگوں نے پردے پر بالکل برعکس منظر دیکھا، لوگ چار دن میں ہی توبہ توبہ کر اٹھے ، ڈالر کو پر لگ گئے ، پٹرول کو آگ لگ گئی ، بجلی چلی گئی لیکن بجلی کے بل دگنے ہو گئے، اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں نے غریب کیا سفید پوشوں بلکہ امراء کی چیخیں نکلوا دیں، جینا دو بھر ہو گیا۔
حالات ٹھیک کرنے اور مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والے خود ٹاک شوز میں بیٹھ کر ڈیفالٹ کی خوشخبریاں سنانے لگے۔
ہاں، اس دوران ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گیا لیکن انصاف کی یہ فراوانی صرف اور صرف “ہم تیرہ چودہ ہیں” کے اداکاروں ، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر تک محدود رکھی گئی، عوام کے لئے تھانے کچہریوں ، ذلت اور لتر پریڈ کا شاندار انتظام کیا گیا۔ قصہ مختصر ، جس خرابی کو بنیاد بنا کر کپتان کو گھر بھیجا گیا وہ خرابی دن دگنی رات چوگنی رفتار سے پھیلنے لگی ۔ محتاط الفاظ میں بھی کہا جائے تو پچھلے ایک سال سے ملک خانہ جنگی کی سی صورتحال سے دو چار ہے ، لولی لنگڑی قومی اسمبلی سونی پڑی ہے، دو اسمبلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، کپتان سوشل میڈیا اور عوامی دباؤ کے ذریعے مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور حکومت ، اداروں ، انتظامیہ اور خاص طور پر مین سٹریم میڈیا کے ذریعے اس پیش قدمی کو روکنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے ، اس مارا ماری نے عدلیہ اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
سچ کہوں تو عوامی مفاد، ملکی سلامتی ، آئین و قانون کی سربلندی کی آڑ میں دونوں فریقین اپنا اپنا رانجھا راضی کرنا چاہتے ہیں ۔ اس میں ریاست اور ریاستی اداروں کا کتنا بھی نقصان ہو جائے اس کی کسی کو فکر نہیں۔
کون صحیح ہے کون غلط، اس بحث سے قطع نظر زمینی صورتحال یہ ہے کہ فی الوقت عمران خان لوگوں کی اکثریت کے ہیرو ہیں اور کم از کم تب تلک ہیرو رہیں گے جب تلک وہ دربارہ اقتدار میں نہیں آتے ۔ ان کا سٹار ڈم صرف اور صرف ایک ہی صورت میں ختم ہو سکتا ہے کہ انتخابات ہوں اور ووٹ کے ذریعے اقتدار ایک بار پھر انہیں سونپ دیا جائے ۔
اب صرف تخت ہی عمران کے ہیرو اور مسیحائی امیج کو تخت و تاراج کر سکتا ہے۔
نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کے لئے بھی پچھلے سال سوا سال کی کمائی خفت و بدنامی سے بچ نکلنے کا ایک ہی رستہ ہے ، انتخابات کا کڑوا گھونٹ بھر لیا جائے ، عمران کے ہاتھ میں جو سلطان راہی والا گنڈاسا ہے ، قوی امکان ہے کہ وہ اس کا استعمال سب سے پہلے اپنے پیروں پر ہی کریں گے ۔۔ (پیروں سے مراد پاؤں ہے اسے پیرؤں نہ پڑھا جائے)
آخر میں ایک مشورہ مریم نواز کے لئے ، آپ کچھ بھی کر لیں آپ کی فلم ان گھسے پٹے ناکام ایکٹرز کے ساتھ ہٹ نہیں ہونی ، تو آپ اپنی یہ فلاپ فلم پنڈی ، اسلام آباد کے بچے کچھے تھیٹرز سے اتاریں اور ایک دو سال بعد نئے اسکرپٹ اور نئے ایکٹرز کے ساتھ خود کو ری لانچ کرنے کا پروگرام بنائیں ۔ ان دو سالوں میں لوگوں کے دلوں سے عمران کا بھوت بھی نکل جائے گا( اگر نکلنا ہؤا تو) اور آپ کو پنڈی اسلام آباد سے کوئی بہتر ڈائریکٹر بھی مل جائے گا ۔ یہ بات پلے سے باندھ لیں کہ اچھے ڈائریکٹر کے بغیر کوئی فلم ہٹ نہیں ہو سکتی، لیکن باہر سے صرف ڈائریکٹر لیجئے ، اسکرپٹ بھی آپ کا اپنا ہونا چاہئے اور ایکٹرز بھی ورنہ پھر ایک بار آپ کی فلم پنڈی ، اسلام آباد کے تھیٹرز تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
جو دیکھتا ہوں ۔۔ آفتاب اکبر۔۔۔
3 مئی 2023ء