چاہے جتنی بھی مایوسی اور گھٹن ہو، قوموں کی زندگی میں ایک آواز ضرور بلند ہوتی ہے، جو روشنی کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہ آواز ، امید کی یہ کرن، ایک لکیر کی مانندافق سے افق تک کچھ یوں پھیلتی ہے کہ مایوسی کے وہ بادل مکمل طور پر چھٹ جاتے ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جب جب کسی عالمی رہنما نے حق و انصاف کی بات کی ہے، بے آواز لوگوں کے لئےاپنی آواز بلند کی ہے، تو اس آواز نے نہ صرف یہ کہ ان قوموں کے سر فخر سے بلند کردئے ہیں بلکہ ان کی کہی اس بات سے ان لوگوں کی زندگی کی سمت ہی بدل کر رہ گئی ہے ۔
دنیا میں ایسے بے شمارلیڈران گذرے ہیں ، یا اب بھی موجود ہیں، جنہیں بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ ان کی کہی بات کبھی گم نہیں ہوتی؛ اس کی گونج دہائیوں پر محیط ہر دور میں زندہ رہتی ہے۔ وہ جب بات کرتے ہیں تو ان کی بات ان کے ہونٹوں سے نکل کر لوگوں کے دلوں میں اترجا تی ہے۔۔۔ اور لوگوں کے دلوں کو چھو لینے والی باتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔اس لئے کہ وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔
عالمی قد کاٹھ کے بڑے رہنماوں کی بڑی اور تاریخ ساز تقریریں صرف آوازیں نہیں ہوتیں۔اور نہ ہی یہ اس ایک فرد کے اپنے ذاتی خیالات کی ترجمان ہوتی ہیں ۔ بلکہ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ یہ تقریریں پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں، اور وہ اپنے لوگوں میں نئے سرے سے جان ڈال دیتی ہیں۔
مہاتمہ گاندھی نے جب ہندوستان پر قابض برطانوی حکمرانوں سے کہا کہ، “ہندوستان چھوڑ دو،” تو وہ کوئی معمولی سا مطالبہ نہیں تھا۔اس کی گونج نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔ لندن کا سنگھا سن بری طرح ڈولنے لگا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آخر کار ہندوستان میں برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہوگیا؛ انھیں واقعی ہندوستان چھوڑنا پڑا۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے جب ۲۸ اگست ۱۹۶۳ کو اپنی تقریر میں کہاکہ ” میرا ایک خواب ہے،” توواشنگٹن ڈی سی میں لنکن میموریل کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر ان کے منہ سے نکلی یہ بات ، ان کا وہ خواب، پلک جھپکتے ہی امریکہ کی سیاہ فام آبادی کے ہر فرد کا خواب بن گیا۔ پھر وہ دن بھی آیا ، جب امریکہ کے ان لاکھوں بے آواز باشندوں نے، جن کے آبا و اجداد کو کسی زمانے میں غلام بنا کر اور زنجیروں میں جکڑ کر افریقہ سے لایا گیا تھا، اپنی آنکھوں سے مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کے اس خواب کو ، اسی واشنگٹن ڈی سی میں شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھا۔ ایک سیاہ فام امریکی ، بارک حسین اوباما نے ملک کی صدارت کا حلف اٹھایا۔
جب امریکی صدر رونلڈ ریگین نے جرمنی میں دیوار برلن کے سامنے کھڑے ہوکر، سویت رہنما کوللکارا کہ، ” مسٹر گورباچوف، اس گیٹ کو کھول دیجئے۔ گرادیجئے اس دیوار کو” تو ان کی اس تقریر سے برلن کی دیوارتو نہیں گری، لیکن امریکی صدر کے اس بے باک اور براہ راست چیلینج کے بعد اس دیوار کا زیادہ عرصہ تک سلامت رہنا بھی ممکن نہ رہا۔ اس شہر کے محصور لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے، نوچ نوچ کر برلن کی اس دیوار کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔
ہماری اپنی تاریخ میں بھی ایسی بے شمار تقریروں کا ذکر محفوظ ہے جنہیں ہم تاریخ ساز قرار دے سکتے ہیں۔ بابائے قوم قائد آعظم محمد علی جناح کی یوں تو کئی تقریریں ایسی ہیں جو قوم کے لئے مشعل راہ بنیں ۔ لیکن شایدان کی گیارہ اگست کی تقریر اس لئے بے حد اہم تھی کہ اس تقریر میں انھوں نے نہ صرف یہ کہ اس نوآزاد ملک کے لوگوں کواپنا ایک منفرد قومی تشخص تشکیل دینے کی ہدایت کی، بلکہ ہمیں اس کے اہم اور ضروری خدو خال بھی بتادئے۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ اس تقریر میں قائد اعظم نے جن اہم باتوں کی نشاندہی کی تھی، وہی تمام باتیں آج بھی ہماری قومیت کی منفردشناخت کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ وہ اجتماعی عیب ہم میں آج بھی جوں کی توں موجود ہیں ،اور ہمارے سر وں پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔ قائد کی باتوں میں جو بات سر فہرست تھی، وہ وہی مسئلہ ہے جو موجودہ حکومت کا بھی سب سے بڑا حدف ہے؛ یعنی ملک سے کرپشن کا خاتمہ ۔ اسی تقریر میں بابائے قوم نے اقلیتوں کو بھرپور یقین دلایاتھا کہ انھیں کوئی فکر نہیں ہونی چاہئے اس لئے کہ وہ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں ۔
اس حوالے سے مجھے صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی ۶،ستمبر ۱۹۶۵ کی وہ تقریر بھی یاد آتی ہے ، جو اس چابکدتی اور مہارت سے لکھی گئی تھی کہ اس نے نہ صرف یہ کہ پوری قوم کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی بلکہ چند ہی منٹوں میں گلگت سے چاٹگام تک پوری قوم کو، بند مٹھی کی طرح یکجا اور متحد کردیا:
“۔۔۔ دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آن پہنچا ہے۔ ۔۔۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام کے دل کی دھڑکنوں میں لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے۔ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں خاموش نہ ہو جائیں۔ بھارت کے حکمران شاید یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین محکم ہے۔۔۔”
ہم من حیث القوم ذولفقار علی بھٹو کی اقوام متحدہ کی وہ تقریر بھی کبھی نہیں بھلا پائیں گے، جس نے قومی تاریخ کے اس تاریک موڑ پر ہمارے جذبات کی مکمل اور بھرپور ترجمانی کی تھی ۔ ہمیں صدر پاکستان جنرل ضیاالحق کی کاسابلانکا کی او آئی سی کی تقریر بھی یاد رہے گی، جو انھوں نے فلسطین ، یاسر عرفات اور کشمیر کے حق میں کی تھی۔ اس کا شمار بھی ہماری تاریخ کی چند اہم اور بے باک تقریروں میں ہوگا۔ اس لئے بھی کہ وہ کوئی لکھی ہوئی تقریرنہیں تھی ۔۔ اور دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
روائیتی انداز میں لکھی ہوئی تقریروں میں ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم ، جناب نواز شریف کی وہ تقریر بھی بڑی اہم اور بروقت تھی جو انھوں نے عالمی امور ، کشمیر اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے موضوعات پر اقوام متحدہ میں کی۔ وہ بھی ایک بڑی اور اہم تقریر تھی ۔
ابھی حال ہی میں ہم نے اپنے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر بھی سنی۔ ساری قوم کی نظریں جیسے اپنے ٹی وی سکرین سے چپک کر رہ گئی ہوں۔ اس ایک تقریر نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انھوں نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ، ہمیں یوں لگتا ہے جیسے بھارت ہمارے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے۔ آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اگر کسی ملک پر جارحیت ہو، اور حملہ کرنے والا ملک اس سے سات گنا بڑا ہو، تو پھر جارحیت کے شکار ملک کے سامنے صرف دو ہی صورتیں ہوتی ہیں: ایک تو یہ کہ وہ جارح کے سامنے ہتھیار ڈال دے ، یا پھر اپنی آزادی کے تحفظ کے لئے آخری دم تک لڑتا رہے۔ میں آپ کو یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم لڑیں گے۔ اور جب ایک جوہری ہتھیار سے لیس ملک لڑتا ہے تو اس کے اثرات اس کی سرحدوں تک محدود نہیں رہتے؛ اس کا خمیازہ ساری دنیا کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ عالمی فورم پر ہمارے نو منتخب وزیراعظم کی پہلی بڑی تقریر تھی۔
انھوں نے اس کے بعد بھی کئی اہم تقریریں کیں۔ لیکن جو اہمیت ان کی قومی اسمبلی میں، بجٹ کی منظوری کے موقع پر کی جانے والی حالیہ تقریر کو حاصل ہوئی وہ شاید کم ہی تقریروں کو ملتی ہے۔ اس لئے کہ یہ تقریر اس بات کا بھی کھلم کھلا اعلان تھا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔لگتا ہے کہ ایک طویل عرصہ کی بے عملی کے بعد ہم نے ملک کی خارجہ پالیسی کے خدو خال اور اس کی سمت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس تقریر میں کئی اہم باتیں کیں ۔ اسمبلی میں اس تقریر کے دوران وزیراعظم عمران خان کے بھر پور مؤقف کی تائید میں اپوزیشن ارکان کے ڈیسک بھی بج اٹھے۔ جمعیت علماء اسلام کےرکن نے تو بے حد زور شور سے ڈیسک بجایا۔
ہمیں یہ پتہ ہے کہ وزیر اعظم کی یہ تقریر اپنے موضوعات کے اعتبار سے ایک بڑی اور انتہائی اہم تقریر تھی۔ اس لئے اس تقریر پر ردعمل بھی صرف پاکستان کی اپنی سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں رہے گا۔ اسے واشنگٹن، بیجنگ، ماسکو، نئی دہلی اور مشرق وسطی’ کے متعدد ممالک سمیت ساری دنیا کے ہی دارالحکومتوں میں، ان ممالک کی اپنی اپنی دلچسپیوں اور اپنی اپنی مایوسیوں اورتشویش کے تناظر میں انتہائی توجہ سے ، اور بار بار سنا گیا ہوگا۔
سعودی وزیر خارجہ کا جہاز بہت جلد اسلام آباد پہنچنے والا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ جوں ہی افغانستان سے دنیا کی متعدد بڑی طاقتوں کا فوجی انخلا مکمل ہوجائے گا، ان دارلحکومتوں سے بھی باضابطہ بیانات آنے شروع ہوجائیں گے۔ لیکن، اس بات کی اپنی جگہ ایک اہم سفارتی اہمیت ہے کہ، ایک ایسے مرحلہ پر کہ جب وزیر اعظم پاکستان امریکہ کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک کے لئے ایک ایسے “فرینک میسیج” کے دوٹوک اور بلا جھجھک بیان کی اشد ضرورت تھی۔ ظاہر ہے اس کا رد عمل آئے گا۔ کچھ تو ایسا ہوگا کہ ہمیں پسند نہ آئے؛ کچھ غیر دوستانہ سا لگے۔ لیکن ہم ان ممالک کے اس ممکنہ ردعمل سے اتفاق کریں یا نہ کریں، ہمیں اسے بھی ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنی پالیسی سازی کے موجودہ عمل کا حصہ بنانا ہوگا۔ اورپھر وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ میں قیام کے دوران شطرنج کی سفارتی چالیں چلی جائیں گی وہ بھی ہمیں ہت کچھ بتائیں گی۔ لیکن جمود ختم ہوچکا ہے۔ اب گیندلڑھکنا شروع ہوچکی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ اب کدھر جاتی ہے۔