پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے توہین عدالت کیس میں لاہور ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی جس کے بعد عدالت نے ان کے خلاف توہین عدالت کا کیس نمٹا دیا۔
لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس جواد حسن نے سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر کو جاری توہین عدالت نوٹس پر بدھ کے روز سماعت کی۔
اسد عمر نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں پی ٹی آئی جلسے کے دوران تقریر میں ججز پر تنقید کی تھی، عدالت نے اسد عمر کی تقریر کی ویڈیو اور ٹرانسکرپٹ بھی طلب کیا تھا، عدالت نے اسد عمر سے توہین عدالت کے نوٹس کا جواب بھی طلب کیا۔
عدالتی حکم پر اسد عمر اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس جواد حسن نے فیصل چودھری سے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کہاں ہیں ان کو پیش کریں، جس پر اسد عمر نے عدالت کے روسٹرم پر آکر اپنی تقریر پر غیرمشروط معافی مانگی اور کہا کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
جسٹس جوادحسن نے کہا کہ مسئلہ توہین عدالت کا نہیں اداروں اور ان کی شخصیات پر الزامات کا ہے، جس پر اسد عمر نے کہا کہ میری تقریر میں کسی جج کا نام نہیں تھا۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میرا مقصد عدالتوں یا ججز کو نشانہ بنانا نہیں تھا، جس پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ میرے پاس آپ کا ویڈیو بیان ہے، وہ چلانا نہیں چاہتے، ہمیں اچھے سے علم ہے آپ نے کیا کہا۔
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں نے آپ کو لانگ مارچ کی اجازت دی، آپ نے عدالتوں ہی کو نشانہ بنایا۔
اسد عمر نے کہا کہ میرے کسی بیان سے اگر کوئی لائن کراس ہوئی تو معافی مانگتا ہوں۔
جج نے کہا کہ عدالت کے پاس آپ کا ویڈیو بیان موجود ہے آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے تقریر میں کیا کہا، آئین کے آرٹیکل 50 رائٹ ٹو موومنٹ اور 60 رائٹ ٹو ڈیمو کریسی کی اجازت دیتے ہیں لیکن اداروں پر تنقید کی اجازت نہیں دیتے۔
عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگنے پر اسد عمر کو جاری توہین عدالت نوٹس کیس نمٹا دیا۔
style=”display:none;”>