سپریم کورٹ نے فیصل وواڈا کی تاحیات نااہل سے متعلق الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔تاہم عدالت عظمیٰ نے فیصل واوڈا کو63ون سی کے تحت نااہل قرار دیا ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ سینیٹ کی نشست سے اپنا استعفی فوری طور پر چیرمین سینیٹ کو بھجوا دیں۔ فیصل واوڈا نے سینیٹ کی نشست سے رضا کارانہ طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ غلط بیان حلفی پر افسوس اور شرمندہ ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں فیصل واوڈا کے بیان حلفی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کہہ دیں کہ اس وقت کے قانون کے مطابق آپ رکن اسمبلی بننے کے اہل نہیں تھے، 15 جون 2018 کو آپ نے امریکی شہریت ترک کرنے کی درخواست دی لیکن شہریت ترک کی نہیں تھی، غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ موجودہ اسمبلی کی مدت شروع ہونے سے نااہل تصور ہوں گے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ کب کا ہے اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ کب دیا؟ جس پر فیصل واوڈا نے بتایا کہ دوہری شہریت 25 جون 2018 کو ترک کی جبکہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ 30 مارچ 2021 کو دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فیصل واوڈا نے 3 سال تک قومی اسمبلی کی رکنیت رکھی، عدالت کا مقصد آپ کو یہاں بلا کر شرمندہ کرنا نہیں ہے لیکن آپ نے تین سال تک سب کو گمراہ کیا، عدالت کے سامنے پہلے معافی مانگیں اور پھر کہیں کہ استعفیٰ دیتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ اگر عدالت کے سامنے معافی مانگ لیں گے اور اچھی نیت سے استعفی دیں گے تو نااہلی 5 سال کی ہو گی، استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں آپ کے خلاف 62 ون ایف کی کاروائی ہو گی۔
فیصل واوڈا نے عدالت میں بیان دیا کہ میں عدالت سے غیرمشروط معافی مانگتا ہوں، جھوٹا بیان حلفی دینے کی نیت نہیں تھی، عدالت کا جو حکم ہو گا وہ قبول ہو گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ جو آپ سے کہا جا رہا ہے وہ عدالت کے سامنے خود کہیں، جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ اچھی نیت سے خود استعفیٰ دیا، آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی تسلیم کرتا ہوں۔
فیصل واوڈا کی غیر مشروط معافی کے بعد سپریم کورٹ نے ان کی معافی تسلیم کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کا حکم کالعدم کر دیا۔
style=”display:none;”>