” تیرا کتا کتا میرا کتا ٹامی” ۔ قلم اٹھایا تو پہلے یہی کالم کا عنوان سوجھا لیکن پھر اس سوچ کو ایک ذرا مدبر سوچ نے رد کر دیا، لیکن سوچا بہرحال بالکل ٹھیک تھا۔
عمران کا دورِ حکومت تھا، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ کے مہنگائی مکاؤ لانگ مارچ نے اگلے دن اسلام آباد میں داخل ہونا تھا، مولانا فضل الرحمن پریس بریفننگ میں فرما رہے تھے۔
” جہاں جہاں پولیس یا کوئی بھی قوت راستے میں آتی ہے، ان کی قوت کو توڑیں، ان کے گھیرے کو توڑیں، اس سے آگے بڑھیں اور اگر وہ ڈنڈا استمعال کرتے ہیں تو آپ کو بھی ڈنڈا استمعال کرنے کی اجازت ہے۔ بھرپور مزاحمت کے ساتھ کل کی کاروائی ان شاءاللہ ہو کر رہے گی، اس تمام صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے حکمت عملی تیار کر لی ہے”۔
عین جس وقت مولانا ملک کے آئینی اداروں کو ببانگ دہل للکار رہے تھے، ملک کے موجودہ وزیر داخلہ سو فیصد متفق انداز میں ان کی بغل میں کھڑے تھے۔ اور حاضرین کے ان شاءاللہ، ان شاءاللہ کے جوابی نعروں سے محظوظ ہو رہے تھے۔
آج موصوف حکومت ہیں، وزیر داخلہ ہیں اور عمران خان کے لانگ مارچ کو روکنے کا بیڑہ اٹھائے ہر فورم پر دھاڑ رہے ہیں۔ کل جن حکومتی اداروں کو آپنا لانگ مارچ کامیاب بنانے کے لئے ڈنڈوں سے سبق سکھانے کا عندیہ دے رہے تھے، آج انہی اداروں کی تحریک انصاف کو دھمکیاں دے رہے ہیں، فرماتے ہیں یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، عمران ایک جتھے کے ساتھ آ رہے ہیں اور ہم کسی جتھے کو اسلام آباد پر چڑھائی کا موقع نہیں دیں گے، جتھہ کلچر فروغ پائے گا تو پھر کہاں کی جمہوریت اور کہاں کی ریاست ، آنے والوں کی نیت بری ہے اور میں بری نیت سے آنے والوں سے سختی سے نمٹوں گا۔
اب آپ لوگ بتائیں کیا میرے ذہن میں یہ عنوان غلط آیا تھا ” تیرا کتا کتا ، میرا کتا ٹامی۔
رانا صاحب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے لانگ مارچ کے دوران جو اصول وضع کر چکے اس کو ذہن میں رکھ کر لانگ مارچ کے شرکاء کے استقبال کی تیاری کریں۔ میرے کہنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنے مہمانوں کو ڈنڈوں سے اپنی تواضح کرنے کا موقع دیں، آپ سے بس اتنی درخواست ہیں آپ اشتعال انگیز قسم کی یہ چاند ماری بند کر کے تیرہ پارٹیوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس سیاسی مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کا طریقہ ڈھونڈیں ۔ سیاست اور ریاست ، دونوں کی عزت رکھنا آپ کا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔
آپ تیرہ پارٹیوں اور تمام تر حکومتی اداروں کے نمائندے ہیں ، آپ کو اعتدال ، بردباری اور متانت کا دامن چھوڑنے سے گریز کرنا چاہئے۔
عمران خان اور اس کی جماعت کے لئے بھی میرا یہی مشورہ ہے۔