لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی پینچ نے اینٹی کرپشن پنجاب کی طرف سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اور بغیر ثبوت کے انہیں اشتہاری قرار دینے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ اپنے وکلا کے ہمراہ پیر کو لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ کے طلب کرنے پر اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس صداقت علی خان نے ایڈیشنل ڈی جی اینٹی کرپشن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو رانا ثنا اللہ کے خلاف مقدمے کے ثبوت پیش کرنے ہیں، ثبوت کہاں ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ رانا ثنا اللہ نے ہاؤسنگ سوسائٹی سے پلاٹ خریدے، وہ تو پلاٹوں کا خریدار ہے، آپ خریدار کو تحفظ دینے کے بجائے اس کے خلاف مقدمات بنا رہے ہیں۔
اینٹی کرپشن پنجاب کے وکیل نے کہا کہ جس ہاؤسنگ سوسائٹی میں رانا ثنا اللہ نے پلاٹ خریدا ہے اس کا این او سی جاری نہیں ہوا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ این او سی کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، آپ نےکہا ہے رانا ثنا اللہ نے پلاٹ رشوت لے کر خریدے ہیں، رانا ثنا نے رشوت کس سے لی ہے ثابت کریں۔
طلب کرنے کے باوجود ڈی جی اینٹی کرپشن کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثنا کے وارنٹ گرفتاری میں غلط بیانی سے اندراج کیا گیا، آپ نے بغیر ثبوت کے رانا ثنا اللہ کو پاکستان کا نمبر ون اشتہاری بنا دیا، مقدمے کے غلط اندراج پر کیوں نہ آپ کو جیل بھیج دوں۔
جسٹس صداقت علی خان نے کیس کی سماعت 28 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کو ریکارڈ سمیت مکمل تیاری کرکے آنے کا حکم دیا۔
style=”display:none;”>