اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے خاتون مجسٹریٹ اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے سے متعلق کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست منظور کر لی۔ کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے کی۔
عمران خان کے وکیل فیصل چودھری اور بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے مؤکل کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست پیش کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان عدالت میں موجود ہیں۔ عدالت نے عمران خان کے پیش ہونے پر ان کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست 12 ستمبر تک منظور کرتے ہوئے انہیں ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
قبل ازیں عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے عدالت میں عمران خان کی ضمانت کے لیے تحریری درخواست جمع کرائی اور جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کو ضمانت دی جائے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ اس کی مثال نہیں، جو عدالت آتا ہے اسے ضمانت ملتی ہے، آپ کے مؤکل کو ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہونا ہو گا۔
بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا مؤکل اسلام آباد میں موجود ہے، پولیس نے لکھ کر دیا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے، پولیس کا کام ہے کہ وہ سکیورٹی فراہم کرے۔ جج نے سرکاری پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ سیون اے ٹی اے جرم کے بغیر کبھی درج ہوئی، آپ کو بتانا ہو گا کونسی کلاشنکوف لی گئی اور کونسی خودکش جیکٹ پہن کر حملہ کیا گیا۔
جج نے ریمارکس دیئے کہ دونوں ایگزیکٹو افسران جنہیں دھمکی دی گئی ان کا بیان بھی پڑھ کر سنائیں وہ ہے یا نہیں، جس پر سرکاری پراسیکیورٹر نے کہا کہ وہ بالکل ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ میرے مؤکل کو کچھ ہوا تو آئی جی اور ڈی آئی جی آپریشنز ذمہ دار ہوں گے، حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یہ افسران بھی ذمہ دار ہوں گے۔
جج راجہ حسن جواد نے کہا کہ عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑےگا جس پر بابر اعوان نے کہا کہ اپنے مؤکل کو 12 بجے لے آتا ہوں۔ جج نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اس ضمانت پر آج ہی دلائل سنے گی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ پہلے ملزم کو عدالت میں پیش کریں پھر ہم بحث کریں گے، جس پر جج نے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ جن کو دھمکی دی گئی ان کا بیان بھی پڑھ کر سنائیں، اس فرض شناس افسر نے اس سے پہلے کتنے دہشتگردی کے مقدمے کیے ہیں۔
جج راجہ حسن جواد نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج تین عدالتیں کھلی ہیں، آپ جو لسٹ دیں گے وہی وکلا کمرہ عدالت میں آئیں گے، گزشتہ سماعت کی طرح عدالت میں غیر متعلقہ افراد نہ آئیں۔
style=”display:none;”>