اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ وزارت داخلہ شہباز گل کے تشدد الزامات پر انکوائری کرائے ، معاملے پر وزارت داخلہ ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کی سربراہی میں انکوائری افسر مقرر کرے اور شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے دوران ایس ایس پی رینک کا افسر اسے سپروائز کرے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپروائز کرنے والا افسر یقینی بنائے کہ ریمانڈ کے دوران ملزم پر تشدد نا ہو۔
حکم نامے میں لکھا ہے کہ شہباز گل کے اڈیالہ جیل پہنچنے پر ان کا ظاہر معائنہ رجسٹر ریکارڈ میں درج کیا گیا۔میڈیکل آفیسر نے رجسٹر میں لکھا کہ شہباز گل کے جسم پر متعدد زخم اور نشانات موجود تھے۔ عدالت نے تحریری حکم نامے میں لکھا ہے کہ قیدیوں سے متعلق رولز کے مطابق شہباز گل کا فوری طبی معائنہ ہونا چاہیے تھا۔ قانون کے مطابق جیل حکام پابند تھے کہ سیشن جج اور انچارج پراسیکوشن کو رپورٹ کرتے لیکن جیل حکام نے شہباز گل پر تشدد کی سیشن جج نا ہی ایڈووکیٹ جنرل کو اطلاع دی۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ شواہد اکٹھے کرنے کی آڑ میں کسی ملزم پر تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی، آئین اور عدالتیں قیدیوں کے حقوق اور تشدد سے بچانے کے محافظ ہیں، شہباز گل پر تشدد کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شہباز گل پر تشدد کی تحقیقات کی درخواست سے متعلق فیصلہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔
تحریری حکم نامہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جاری کیا۔ حکم نامے میں لکھا ہے کہ آئی جی اسلام آباد نے شہباز گل پر تشدد کی تردید کی ہے۔ شہباز گل کے معائنہ کے لیے 13 اور 15 اگست کو میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ پولیس کے مطابق شہباز گل نے میڈیکل بورڈ سے طبی معائنہ کرانے سے انکار کیا اور میڈیکل بورڈ نے شہباز گل کی صحت پر رپورٹ دی تاہم تشدد کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
style=”display:none;”>