پاکستانی امریکیوں کے ایک وفد نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اسرائیل کے صدر اسحاق ہزوگ نے گزشتہ روز ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی امریکیوں کے وفد سے ملاقات کا ان کا تجربہ بہت اچھا تھا اور جس سے انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ مسلم دنیا کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی آ رہی ہے۔
معاہدہ ابراہیم جو دو سال قبل امریکہ نے اسرائیل اور عربوں کے درمیان کرایا تھا، کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی صدر نے کہا کہ اس معاہدے کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ اب محض دوروں تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے نتیجے میں ہر شعبہ زندگی میں تعاون کو فروغ ملے گا۔
پاکستانی امریکیوں کا یہ دورہ اسرائیل کے حامی سول گروپ شاراکا کی طرف سے اسپانسر کیا گیا تھا جو 2020ء میں ابراہیم معاہدے پر دستخط اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔یہ گروپ اسرائیل کو خلیجی ممالک سے ملانے کے لیے کام کرتا ہے۔
شاراکا نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ انہیں جنوب مشرقی ایشیا سے مسلمانوں اور سکھوں کے ایک وفد کو لانے کا اعزاز حاصل ہوا جس میں پہلے پاکستانی یہودی کو اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ سے ملنے کے لئے اسرائیل جانے کی اجازت دی گئی۔
مندوبین نے صدر سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کے بارے بات کی۔وفد نے اسرائیلی صدر سمیت اعلیٰ اسرائیلی قیادت سے ملاقات کی۔ وفد میں امریکا میں مقیم لابسٹ پاکستانی نژاد انیلا علی بھی شامل تھی جنہوں نے وفد کی سربراہی کی ۔
انیلا علی کے بہت سے پاکستانیوں سے ملاقاتیں کرچکی ہیں جس میں عمران حکومت کے وفاقی وزیر علی زیدی بھی شامل ہیں۔
پاکستانی میڈیا کے کچھ چہرے بھی وفد کا حصہ تھے۔ واضح رہے کہ پاکستانی امریکیوں کے وفد میں سرکاری ٹی وی سے منسلک صحافی احمد قریشی بھی شامل تھے۔
پاکستان کا پہلا یہودی شہری فشل بن خلد بھی شامل تھا جسے اسرائیل میں پہلی بار داخلے کی اجازت دی گئی۔
سابق وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اس دورے پر تنقید کرتے ہوئے احمد قریشی کو نشانہ بنایا۔
style=”display:none;”>