سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان گراؤنڈ میں جلسہ کی اجازت دینے کا حکم دے دیا۔
تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پی ٹی آئی اور حکومت کو مشاورت کاحکم دیا اور اٹارنی جنرل کو پی ٹی آئی کے مطالبات پر ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کرنے کا کہا۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’بابر اعوان صاحب آپ پوچھ کر بتائیں احتجاج کب تک رہے گا؟ یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے، ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کچھ عرصہ قبل احتجاج پر جو وعدہ کیا وہ پورا کیا۔‘
اس موقع پر تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم بھی ایسا ہی کریں گے، ہمارا نئے الیکشن کا مطالبہ ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں، کمیٹی پی ٹی آئی کی جلسہ گاہ اور الفاظ کے چناؤ کے معاملے کو دیکھے گی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، آئی جی صاحب آپ چار دن پہلے تعینات ہوئے، آئی جی صاحب آپ پر پہلے ہی بہت کیسز اور الزامات کا بوجھ ہے، اپنے آپ میں رہیں، اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور پوری کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خطرہ ہے تو ہمیں نام بتائیں، ہم حفاظتی حکم دیں گے، سپریم کورٹ نے سب کا تحفظ کرنا ہے، کوئی کہیں بھی ہو، پاکستان ادھر ہی ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ سکیورٹی تھریٹ کی رپورٹ کس نے دی ہے؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ دو انٹیلی جنس ایجنسیوں اور نیکٹا نے سکیورٹی تھریٹ رپورٹ دی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ تشدد نہیں ہو گا اور راستے بھی بند نہیں ہوں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا ملک میں کیا حالات ہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔
style=”display:none;”>