آج جب حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے آئین کی ایک شق کو استعمال کرتے ہوئے عمران خان صاحب کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تو وہ بھی یہی سوال کرتے نظر آرہے ہیں کہ، “مجھے کیوں نکالا؟” ۔ ۔ ۔ بلکہ وہ اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، کھلے عام اور صاف صاف الفاظ میں یہ بھی بتا رہے ہیں کہ — ان کے خیال میں — انھیں کیوں نکالا گیا۔
اب اگرہم آج سے کوئی ۵ سال ہیچھے جائیں جب یہی شکائت نواز شریف صاحب کو عدلیہ اور سٹیبلیشمنٹ سے ہو ئی تھی اور وہ بھی بالکل خان صاحب کی طرح سڑک پر نکل آئے تھے تو آپ کو جہاں کئی مماثلت نظر آئے گی، وہیں اس میں متعدد اور بہت بڑے بڑے فرق بھی نظر آئیں گے۔
ایک مماثلت تو یہی ہے کہ عمران خان صاحب کو بھی یہی شکایت ہے کہ ، مجھے کیوں نکالا گیا؟ لیکن ایک بہت بڑا فرق بھی ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ خان صاحب ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے ایک سازش کے ذریعہ، مداخلت کرکے، اور ملک کے اندر کچھ لوگوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے، ڈالرخرچ کرکے نکالا گیا اورمجھے نکالنے والا ریاست ہائے متحدہ امریکہ تھا۔ بلکہ ابھی کل ہی خان صاحب سات سمندرپار بیٹھے امریکی صدرجو بائیدن سے، یہیں بیٹھے بیٹھے پوچھ رہے تھے کہ انھیں ‘کیوں نکالا؟’
میں ان دونوں “کیوں نکالا” میں مماثلت اور تفاوت نکالنے کی کوشش کر رہا تھا، تو مجھے اپنے وہ تین “بلاگز” یاد آئے جو میں نے ان ہی دنوں میں، اپنے ذاتی تاثرات کے طور پر “بلاگ سپوٹ” پر پوسٹ کئے تھے، جب سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب، عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں اقتدار سے محرومی پر، شدید غصہ کی حالت میں سڑک پر نکل آئےتھے۔ ان کا جلوس جی ٹی روڈ پر چل پڑا اور اسکی منزل لاہور تھی۔
عوام میں انکی مقبولیت میں کوئی شک نہیں تھا، اسلئے اکثر لوگوں کا خیال یہی تھا کہ ان کے چاہنے والوں کا ایک جم غفیرسڑک پر امنڈ آئے گا جنھیں قابو میں رکھنا شاید ممکن نہ رہے۔۔۔ کہیں کہیں بالکل ایسا ہی ہوا ۔ ۔ ۔ لیکن کئی ایسے مقامات بھی آئے جہاں حیرت انگیز طور پر لوگ نہیں آئے۔ خاص طور پرراولپنڈی سے گوجر خان تک لوگوں کی تعداد انتہائی کم تھی۔ جہلم سے آگے نکلنے کے بعد ہی سڑکوں پر لوگ آنا شروع ہوئے ۔
میں اپنے وہ ۵ سال پرانے بلاگ آپ کو پڑھواتا ہوں۔ اسے پڑھ کر آپ کو خود بھی بہت سی باتیں یاد آتی چلی جائیں گی۔ اس سے آپ اس وقت کے ان حالات کا موازنہ آج کے حالات و واقعات سے خود ہی کر لیں گے۔ عمران خان کے جلسہ جلوس اور لوگوں کے رد عمل کا حال بھی آپ نے دیکھا ہے اور اس وقت کا حال بھی آپ کو ابھی یاد ہی ہوگا؟
میرے تین بلاگز —
Tuesday, August 8, 2017
اظہار خیال
———
کیا ہونے والا ہے؟
— مشتاق صدیقی
سیاست، پیار محبت کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے عین مطابق، یا اسکے قریب تر رہتے ہوئے، سیاسی مخالفین سے بات چیت کے ذریعہ نتائج حاصل کرنے کانام ہے۔
بات نہ بن رہی ہو تو ایک خوبصورت موڑ دیکر، کوئی تلخی یا کشیدگی پیدا کئے بغیر اقتدارچھوڑ دیناچاہئے – – – اور دوسری جماعت سے کہنا چاہئے کہ آئے آپ حکومت بنا لیں! آئین کو پرکھنے اور اسے بہتر بنانے کے یہی مرحلے ہوتے ہیں !
یہاں تو صورت حال وہ بھی نہیں ہے– ملک میں آج بھی پارٹی کی اپنی ہی حکومت ہے
جی ٹی روڈ کا عوامی کارڈ اس وقت کھیلا جاتا ہے جب ایک مکمل پلان موجود ہو– اور اس میں جی ٹی روڈ پر آنے والے لوگوںکی جسمانی طاقت یا “کھچا کھچ بھری سڑک پر” حد نگاہ تک پھیلے “انسانوں کے سمندر” سے بننے والے منظر کے ٹیلی کاسٹ سے”سیاسی طاقت” کا جو عملی مظاہرہ جنم لے، اسکے استعمال کا پہلے سے تعین کر لیا گیا ہو اور اس کے لئے وقت اور حدود کا تعین بھی کر لیا گیا ہو! اگر ایسا ہی ہے تو ضرور سڑکوں پر نکلیں (اگر اس سے عدالت کی توہین نہ ہوتی ہو)۔
کیونکہ لگتا یہ ہے کہ گوجرانوالہ پہنچ کر ایک دوسرے سے یہ نہ پوچھ رہے ہوں کہ “اب کیا کریں؟”
اس کے علاوہ اگر جزبات قابو میں نہ رہے اور تقریروں میں کوئی ایسی بات منہ سے نکل جائے جس سے “سرخ لکیر” کی حرمت مجروح ہو، تو پھر کیا ہو؟
آگر عوام کا “ٹھاٹھیں مارتا سمندر” آپ کے قابو سے باہر نکل جائے تو کیا ہو ؟
ویسے بھی اگر اس مارچ کا مقصد عدالتی کاروائی کو روکنا ہے، تو یہ بات ناقابل فہم اور کچھ عجیب سی لگتی ہے۔
اوراگر نااہلی کا فیصلہ تبدیل کروانا مقصد ہے تو وہ تو صرف ایک اپیل کے ذریعہ ہی ہو پائے گا- – – اور اس اپیل کے لئے پہلے آئین میں ایک ترمیم کرنی ہوگی؛ اور یہ دونوں ہی کام گوجرانوالہ یا لاہور کی سڑکوں پرنہیں ہو پائیں گے، اس کے لئے اسلام آباد آنا ہو گا — جہاں دونوں ہی عمارتیں ریڈ زون میں ساتھ ساتھ کھڑی ہیں۔
اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا، تو پھر اس عوامی مارچ کا مقصد؟
سپریم کورٹ کے 0-5 بنچ کے متفقہ فیصلہ کے نتیجے میں معزول کئے گئے ایک سابق وزیراعظم کی ان سیاسی سرگرمیوں کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنا مشکل ہی نظر آتاہے، ہاں (اللہ نہ کرے) منفی نتائج بے شمار نکل سکتے ہیں۔
لیکن کیا پتہ میرے اندازے غلط ہوں؟
——————————————–
اظہار خیال
Saturday, August 12, 2017
کیا ٹکراو سے بچا جاسکتا ہے؟
— مشتاق صدیقی
آواز، لب و لہجے اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی (اداسی) سے لگتا ہے کہ نواز شریف صاحب بہت ہی زیادہ ناراض ہیں۔
میری سمجھ کے مطابق، وہ فوج سے بہت ہی زیادہ ناراض لگتے ہیں؛ عدلیہ اور مخالف جماعتوں کے لیڈروں سے بھی ان کی ناراضگی ہے — لیکن جو ان تمام باتوں سے زیادہ تشویش کی بات ہے وہ ان کی وہ ناراضگی ہے جو انہیں اپنی ہی پارٹی کے بے شمار لیڈران سے ہے۔
ایک طرح دیکھیں تو وہ ایک ایسے سابق سیاست داں نظر آتے ہیں جن سے ان کا اقتدار بھی لے لیا گیا ہو اور ان کی پارٹی بھی ! وہ بالکل ہی تنہا ہو گئےہیں-
ریلی شروع ہوتے ہی پارٹی میں پیدہ ہونے والی یہ دراڑ زیادہ گہری اور نمایاں ہوتی چلی گئی ہے- ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے بےشمار لیڈران کو اپنے آپ سے بہت دور کر دیا – جبکہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رفتہ رفتہ خود ہی ان سے دور ہوتے چلے گئے–
اب اس کنٹینر میں پاکستان کے اس معزول وزیر اعظم کا واحد قابل اعتماد اور کارآمد ساتھی ایک ہی نظر آتا ہے، اور وہ ہے ڈان لیکس کیس کا شکار، معطل وزیر اطلاعات پرویز رشید۔
ویسے تو کنٹینر کے اندر سعد رفیق بھی ہیں اور کنٹینر سے باہر عابد شیرعلی بھی لوگوں کو محظوظ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یا تو انکا کوئی رول متعین نہیں کیا گیا یا انھیں محض پیغام رسانی تک محدود رکھا گیا ہے۔
اس لئے کہ جب نواز شریف صاحب کی غصہ اور غیض و غضب میں ڈوبی تقریر کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے قریب صرف پرویز رشید صاحب ہی ہوتے ہیں اورپھرصرف ان ہی کا مشورہ، اور ان کی ہی چٹیں کام آتی ہیں۔
میں نے پچھلے ایک بلوگ ایک خدشے کا اظہار کیا تھا جو بدستور مو جود ہے- ناراضگی کا اظہار اگر سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر کیا گیا تو اداروں کے درمیان ٹکراو کا خدشہ ہر دم موجود رہتا ہےاور اب بھی موجود ہے۔ کبھی کبھی عدلیہ کے خلاف غصہ کا اظہار بھی حدود و قیود سے نکلتا نظر آتا ہے۔
نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب اب اپنی پارٹی کے عہدے دار بلکہ رکن بھی نہیں رہے؛ نواز شریف صاحب پر متعدد الزامات عائد ہیں جو سپریم کورٹ نے عائد کئے ہیں جن کی تحقیق ہونی ہے– چند وکلا کے خیال میں تو ان میں سے کئی کیسز ایسے ہیں جن میں انھیں فوری ضمانتیں کروانے کی ضرورت ہے۔
لیکن ہم یہ دیکھ رہےہیں کہ قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے نواز شریف صاحب اپنی قانونی لڑائی پنجاب کی سڑکوں پر لیجانے کا فیصلہ کر چکے ہیں-
خدشہ یہ ہے کہ ٹکراو پیدا ہوگا- اداروں کے درمیان بھی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بھی- اگر بات یہیں رک جائے تو کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے! ۔
——————————-
اظہار خیال
یہ کیا ہورہا ہے؟
کچھ لوگوں نے دعوی’ کیا کہ نواز شریف صاحب کے کل کے جلوس میں صرف پانچ سو گاڑیاں تھیں– کسی ایک وقت شاید 500 گاڑیاں بھی رہی ہونگی لیکن میں نے ایک مرحلہ پر900 گاڑیوں کی موجودگہ کی بھی کئی رپورٹیں دیکھی ہیں (ان میں سے ایک رپورٹ تو جیو چینل کی بھی تھی) — اگر ایک گاڑی میں اوسطا” تین افراد بھی بیٹھے ہوں تو ساتھ چلنے والوں کی کل تعداد 25 سو کے لگ بھگ تو ضرور بنتی ہے۔ جس جگہ سے قافلہ گزر رہا تھا وہاں محلہ کے ہزار دو ہزار لوگ بھی کھڑے ہونگے۔ کسی بڑے کراوڈ کے آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے، خاص طور پر کمیٹی چوک اور لیاقت باغ کے علاقہ میں کہ وہ پی پی پی کےکٹّر جیالوں کاعلاقہ ہے ۔
اب ذکر گوجرانوالہ کے ایک ویڈیو کلپ کا ۔۔۔۔–
گوجرانوالہ سے رہورٹ آئی کہ وہاں لوگوں کی دلچسپی کو زندہ رکھنے اور معزول وزیر اعظم اور معطل سربراہ جماعت سے ان کی محبت کے جزبہ کو اجاگر کرنے کے لئے نت نئے اور انوکھے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔
کرنسی نوٹ کی گڈیاں ہوا میں اچھالنا ایک اچھوتا مگر مہنگا طریقہ ہے- ظاہر ہے پیسہ انکی جیب سے نہیں جارہا ہوگا ورنہ گڈی ہوا میں اچھالتے وقت ہاتھ میں تھوڑی بہت لغزش ضرور آجاتی؛ ڈپٹی میئر کے دست و بازو میں یہ عجب اعتماد اور کمال تمکنت پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ یہ عوام ہی کا پیسہ ہے جو اب ان کو لوٹا یا جارہا ہے!!
ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی: جب یہ پتہ ہے کہ نواز شریف صاحب گوجرانوالہ تین یا چار دنوں بعد پہنچیں گے تو آج ہی سے نوٹوں کی گڈیاں ہوا میں کیوں اچھالی جارہی ہیں ؟ ان کے آتے آتےتو مقامی بینکوں کا دیوالیہ نکل جائے گا؟
ان تمام باتوں سے قطع نظر سیاست میں پیسے کا ایسا بھونڈا اور بے دریغ استعمال دیکھ کر ذہن میں یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ، یہ کیا ہورہا ہے؟ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ اور یہ بھی کہ ہمیں یہاں تک کن کن لوگوں نے پہنچایا ہے؟