پچھتر سال میں ہر پاکستانی نے بیسیوں بار یہ جملہ پڑھا یا سنا ہو گا کہ پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک موڑ سے گذر رہا ہے۔ کم از کم دو جنریشنز اس نازک موڑ سے گذرتے گذرتے خود گذر گئیں لیکن یہ نامراد موڑ وہیں کا وہیں کھڑا ہے
9 مئی کے سورج نے اس نازک موڑ کو شاید اپنے نازک ترین حصے میں سے گذرتا دیکھا
میری مراد عمران کی گرفتاری سے نہیں ہے ۔ گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے عوامی ردعمل سے ہے ۔ پاکستانی عوام خود ، اپنے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف نکل کھڑی ہوئی
وجہ کچھ بھی ہو لیکن جو کچھ ہؤا ، وہ ہر گز ، ہر گز نہیں ہونا چاہئے تھا۔ آج اس دھرتی کو وہ زخم لگا ہے جو اگر ناسور نہ بھی بنا تو اسے مندمل ہونے کے لئے عمریں درکار ہوں گی۔۔۔۔
ناخوشگوار ترین احتجاج کی ویڈیوز اور تصویریں دیکھتے دیکھتے نظر ایک پوسٹ پر جا ٹھہری ۔۔۔۔ لکھا تھا
” 75 سالوں بعد ہم جس مقام پر ہیں وہ صرف ڈوب مرنے کا مقام ہے”
آگے بھی کچھ لکھا تھا لیکن ڈر کے، پڑھے بغیر جلدی سے فون بند کر دیا ، پہلے جملے ہی نے ایکدم دلگیر کر دیا تھا اس سے آگے پڑھتا تو شاید ابھی تک مشورے پر عملدرآمد کر چکا ہوتا
اللہ تعالیٰ ، ہمارے ملک پر رحم کرے
احمد ندیم قاسمی کی ہہ لازوال غزل، صرف غزل نہیں اس وقت ہر پاکستانی کی دعا بھی ہے۔۔۔
(احمد ندیم قاسمی )
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
(آمین)