میری ذاتی رائے یہ ہے کہ آج ہم اردو ادب کے جن چند ‘بڑے شاعروں’ کے دورمیں زندہ ہیں، یہ دورافتخارعارف اور جاوید اخترجیسے باکمال شعراء کا دور ہے۔ اگر، احمد فراز اور پروین شاکر جیسے کچھ شاعر کم عمری میں ہی ہم سے جدا نہ ہوگئے ہوتےتو آج وہ بھی ان شعراء کی فہرست میں موجود ہوتے جن اردو شاعروں کا آج طوطی بول رہا ہے۔ لیکن کیا کریں کہ جانے والوں کی بس یادیں رہ جاتی ہیں، یا پھر ان کا جیتا جاگتا کلام ہوتا ہے، جواپنے ساتھ ساتھ انہیں بھی ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔
میرے دل سے قریب رہنے والے شاعر افتخارعارف کی بات آپ سے پھرکبھی ہوگی۔ ان سے کچھ دعا سلام بھی رہی ہے، اور ان کی باتیں بھی کچھ زیادہ ہیں۔ آج میں بات صرف جاوید اختر صاحب کی کرنا چاہتا ہوں۔
اکثر زیرلب مسکراتے رہنے والے تر و تازہ چہرے اور سوچتی ہوئی آنکھوں والے جاوید اختر کی شخصیت کے یوں تو کئی پہلو ہوں گے، لیکن دنیا انہیں صرف – یا زیادہ تر – ان کی شخصیت کے دو پہلوؤں کے حوالے سے ہی جانتی ہے۔ ایک تووہ اردو زبان کے بڑے شاعرہیں۔ یہ ان کا ایک بہت بڑا حوالہ ہے۔ دوسرے، فلم لکھنے والا یا فلمی نغمے لکھنے والے جاوید اخترہے جو کہ ایک بالکل ہی مختلف سی شخصیت ہیں۔ ہاں، ان کی شخصیت کا ایک پہلو اور بھی ہے، اور وہ ہے جاوید اختر بحیثیت ایک انسان – دیکھنے، سوچنے، لکھنے، پڑھنے، محسوس کرنے والے اور بولنے والا انسان۔
میری طرح ، جاوید اختر، شاعر کو ٹوٹ کے چاہنے والے اور بھی ہوں گے۔ لیکن انہیں، مجھ سے بہتر طورپر جاننے والے ایک نقاد پروفیسرگوپی چند نارنگ ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں جاوید اختر کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ ” پیڑ سے لپٹی سوچ کی بیل” میں لکھتے ہیں :
” ’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے، شاعر تووہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے‘
یہاں، غالب نے شخص کو شاعری سے جدا کیا ہے، جبکہ جو شخصیت کا نشیب وفراز ہے یا زندگی کی واردات ہے وہ تو شاعری میں جھانکے گی ہی لیکن شاعری محض آئینۂ ذات بھی نہیں ۔ ۔ ۔ اسی لیے بعض علما نے شاعری کو شخصیت کامن وعن عکس نہیں اس سے گریز قرار دیاہے ۔ ۔ ۔
مزید یہ کہ غالب نے مقطع میں لفظ ’بدنام‘ کو ایسی جگہ رکھا ہے کہ لفظ ’اچھا‘ کی اچھائی اور نمایاں ہوگئی ہے، اور ’بدنام‘ بطور تعریض آیا ہے بمراد نیک نامی و شہرت ۔ بلاتشبیہ اتنی بات تو کہی جاسکتی ہے کہ کون نہیں جانتا کہ جاوید اختر کی شہرت ان کی شاعری سے کئی قدم آگے چلتی ہے۔ “
کئی قدم آگے چلنے کی بات بھی خوب کہی۔ اس بیان سے میں بڑی حد تک متفق ہوں۔ اس لئے کہ میں نے بہت سے ایسےلوگ دیکھے ہیں کہ ان کے بارے میں خاطر غزنوی کے الفاظ میں بلا جھجھک یہ کہا جاسکتا ہے کہ،
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
گوپی چند نارنگ کا تعلق بھی جاوید اختر کے ہی دیس یعنی بھارت سے ہے۔ ان کا شمار عہد حاضر کے اردو ادب کے صف اول کے محقق، تنقید نگاراورادیبوں میں ہوتا تھا۔ پچھلے سال ہی ان کا انتقال ہوا ہے۔ پروفیسر صاحب دہلی میں مقیم تھے مگر وہ بارہا پاکستان آئے اوریہاں انہوں نے متعدد ادبی تقریبات میں شرکت کی۔ پاکستان میں بھی انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
جاوید اختر کا کچھ کلام تو وہ ہے جو فلموں میں استعمال ہوا، لیکن زیادہ مشہور وہ کلام ہے جو ان کی اپنی آواز میں سوشل میڈیا کے ذریعہ سرحد پار ہم تک پہنچا۔ بہت ساری نظمیں اور غزلیں ہیں، جنہیں سن کرہمیں ایسا لگتا رہا جیسے، یہ ہمارے لئے یا ہمارے بارے میں کہی گئی ہے ۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دونوں معاشروں کے حالات میں بڑی مماثلت ہے۔۔۔
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو
پچھلے ہفتہ وہ اور ان کی بیگم شبانہ اعظمی لاہور آئے ہوئے تھے۔ ان کے آنے کا مقصد اردو ادب کے ایک بہت بڑے شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کرنا تھا۔ ہم نے جو رپورٹیں دیکھیں ان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ منتظمین کی یہ ایک بڑی ہی کامیاب کوشش تھی۔ لوگ دور دور سے آئے اور انہوں نے بڑے ہی پرجوش انداز میں ان تقریبات میں حصہ لیا۔
جاوید اختر صاحب نے بھی حصہ لیا اور اپنا کلام سنایا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ، بقول گوپی چند نارانگ جیسے شاعر کے اندر سے اس کی ‘دوسری شخصیت’ اچھل کر باہر نکل آئی ہو ۔ موصوف مجسم غالب کا مصرع بن کر رہ گئے۔
” شاعر تووہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے”
سوشل میڈیا پر شئیر کی جانے والی ان کی گفتگو کی ایک کلپ نے ان کی شخصیت کے سارے سحر کو توڑ کر رکھ دیا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ “فیض فیسٹیول” کے کسی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ گلہ کر رہے تھے کہ، آپ کے شاعروں اورادیبوں اور فنکاروں کے لئے تو ہم بڑھ چڑھ کر خصوصی پروگرام کرتے رہتے ہیں، لیکن کیا آپ نے ایسا کبھی کیا ہے؟ پھر انہوں نے ایک مثال دی: کیا آپ نے “لتا منگیشکرجی” کی یاد میں کوئی تقریب کی؟
میں سوچنے لگا۔ واقعی کیا ہم نے کوئی پروگرام کیا؟ ابھی میں کیا، اور نہیں کیا میں ہی الجھا ہوا تھا، سوچ ہی رہا تھا کہ انہوں نے یک بیک موضوع گفتگوہی بدل ڈالا۔ وہ ممبئی کے سانحہ کا افسوس ناک قصہ لے آئے۔ کہنے لگے، “۔ ۔ ۔ وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے ؛ نہ ہی مصر سے آئے تھے۔۔۔ وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں۔ ۔ ۔”
میں حیران رہ گیا ۔ اس قسم کی ، یکطرفہ قصہ کہانی اور وہ بھی ایک ادبی محفل میں چھیڑ کر ماحول کو مزید کشیدہ کرنے سے انہیں کیا فائدہ پہنچا ہوگا؟ ضرور پہنچا ہوگا ورنہ کامیاب فلموں کی سکرپٹ لکھنے والے کو اچھے طرح پتہ ہوتا ہے کہ ایک موضوع تک جانے کے لئے – موضوع بدلنے کے لئے کتنے پاپڑ بدلنے پڑتے ہیں ۔ ان سے جن لوگوں نے بھی یہ کہانی اس ادبی محفل میں چھیڑنے کی شرط پرانہیں پاکستان آنے کی اجازت دی تھی انہوں نے ان کے ساتھ بڑی زیادتی کی۔ ایک اچھے بھلے شاعر کو ‘متنازعہ’ بنا دیا۔
یہ بات کرتے ہوئے اس حساس ادیب و شاعر و کہانی نویس کے ذہن سے یہ بات یکسر نکل گئی تھی کہ بمبئی کے واقعہ کے لوگ تو اسی وقت پکڑے گئے تھے اور انہیں پھانسی بھی دے دی گئی۔ لیکن بھارتی مقبوضہ کشمیرمیں روزانہ جو واقعات دہرائے جارہے ہیں، ان کا آپ کو ابھی تک پتہ نہیں چل پایا۔ ایسا کریں، “الجزیرہ” اور “بی بی سی ” کی رپورٹیں دیکھ لیں؛ ویب پر پڑی ہیں۔ ممبئی جیسے ماضی کے واقعہ کی تلاش ہے تو میں آپ کی انگلیاں پکڑ کر سرکاری سرپرستی میں کئے جانے والے گجرات کے فسادات تک لئے چلتا ہوں۔ جی ، جی، یہ وہی فسادات ہیں جو ‘وزیر اعلی مودی ‘ کی براہ راست نگرانی میں کروائے گئے۔ یہ پاکستانی پراپیگنڈہ ہے؟ نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ بی بی سی نے اس پر ڈاکومنٹری بنائی ہے۔ وہی جس پر سارے بھارت میں پابندی لگا دی گئی۔ لیکن یہ دونوں مثالیں آپ کے لئے بیکار ہیں۔ اس لئے کہ ایک تو “اس میں پاکستان کا ہاتھ” ثابت کرنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھارتی حکومت کچھ نہیں نکال پائی ہے۔ دوسرے اس کو ہاتھ لگانا اس لئے بھی مشکل ہے کہ اس میں مودی جی خود، براہ راست ملوث ہیں۔ آپ نے ہاتھ لگایا تو مشکل میں پڑ جائیں گے۔ ابھی تک تو آپ کو یہ شکائت ہے کہ ممبئی میں آپ کو صرف اس لئے فلیٹ نہیں دیا جاتا کہ آپ ‘مسلمان’ ہیں۔ اگر آپ نے اس پر کچھ کہا تو آپ سے کہا جائَے گا کہ آپ :پاکستان” یا “قبرستان” چلے جائیں۔
ہماری تجویز یہی ہے کہ ایک بار وہ بی بی سی والی وہ ڈاکومینٹری آپ بھی دیکھ لیجئے۔ نہیں مل رہی ہے؟ پاکستانی سفارت خانہ میں ضرور ہوگی، لیکن آپ وہاں مت جائیے گا۔ آپ نئی دہلی کے کسی بھی ملک کے سفارت خانہ میں جائیں اور جاکر دیکھ لیں۔ یہ ڈاکو مینٹری تو اب ہر ملک کی سفارت کاری اور اطلاعات و نشریات کی تعلیم کے نصاب کا حصہ بن چکی ہے۔ دیکھئے اور پھر بلند آواز میں کہئے:
جن سے قصیدے لکھے تھے وہ پھینک دے قلم
پھر خونِ دل سے سچے قلم کی صفات لِکھ
لیکن آپ ایسا نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ آپ کا مرنے والوں سے کیا تعلق؟ دونوں واقعات میں شکارہونے والے بھارت کے مسلمان ہیں – اورمیں نے سنا، آپ نے اسلام ترک کردیا ہے۔ سنا ہے کہ آپ ‘لا مذہب’ ہوگئے ہیں؟ چلیں اس معاملہ میں تو ہم کچھ زیادہ نہیں کہیں گے کہ یہ معاملہ آپ کے اور آپ کے رب کے درمیان ہے۔ لیکن آپ توپاکستان کے وجود اور اس کے جواز کے بھی قائل نہیں ہیں۔ آپ نے تو کئی تقریریں اس موضوع پر ارشاد فرمائی ہیں جو سراسر بھارتی انتہا پسند جماعتوں اور تنظیموں کو خوش کرنے کے لئے کی گئی تھیں۔
ان تقریروں کو ہمیں بھی سننا چاہئے تاکہ آئندہ جب ہم ان جیسے لوگوں کی زبانی “ممبئِ بھاشن” سنیں، تو تالیاں نہ بجائیں، بلکہ ان سے سوال بھی کیا کریں ۔ ان سے پوچھیں کہ بھارت میں امریکہ کی سفیر نینسی پاول نے ان کے وزیر اعظم مودی کو کس بات پر امریکی ویزہ دینے سے انکار کیا تھا؟ اور ایسی کیا بات ہوئی تھی کہ جب وہائیٹ ہاوس نے انہیں حکم دیا کہ ویزہ جاری کیا جائے، تو خاتون سفیر نے ویزہ تو جاری کردیا لیکن ساتھ ہی سفارت کاری سے استعفی’ دے دیا؟
لمبی کہانی ہے۔ لیکن ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایسے ” سیاسی معاملات” پر صرف اپنی حکومت کے کہنے پر نہ بول پڑا کریں۔ اچھے شاعر ہیں شاعر رہیں۔ آتے جاتے رہیں لیکن ہماری ادبی محفلوں کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں۔