[گذشتہ سے پیوستہ: برٹش انڈیا میں مغربی اثرات بڑھے تو بہت سی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آ گئیں، جن کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے لکھنے والوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی۔ یہی تسلسل تھا جس میں ایک بڑا نام سٹیج کی دنیا میں نمودار ہوا اورجلد ہی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ وہ نام تھا آغاحشر کاشمیری کا نام۔ وہ مشہوراسی قلمی نام سے ہوئے لیکن ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ چودہ سال کی عمر میں بمبئی آئے اور وہاں پندرہ روپیہ ماہانہ معاوضہ پر’الفریڈ تھیٹریکل کمپنی’ میں ملازمت کرلی۔ لیکن، جوں ہی ان کا پہلا کھیل مقبول ہوا، کمپنی نے ان کی تنخواہ بڑھا کر فورا” ہی چالیس روپیہ کردی۔]
آغا حشر کے نام سے پہچانے جانے والے محمد شاہ کو اس نام سے شاید ہی کوئی پہچان پائے۔ لیکن یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جس شخص کو شہرت وعزت ملی اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی – جسے اس کے تحریر کردہ سٹیج ڈراموں اور کامیاب تھیٹرکی وجہ سے ‘شیکسپئیر ثانی’ کا خطاب دیا گا، وہ زبان و بیان کا استاد، اسٹیج ڈراموں کی پیشکش کا ماہراور اپنے وقت کا تھیٹر کا قد آورترین شخص کوئی اور نہیں یہی، محمد شاہ تھا۔
آغا حشر نے سٹیج پر پیش کئے جانے والے اپنے ڈراموں میں محاورے، کہاوتیں سنانے اور مکالموں میں اشعارکو شامل کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ لوگوں میں بے حد مقبول ہوا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کا ‘سٹیج پلے’ دیکھنے والا، عام طور پر کم پڑھا لکھا، یا ان پڑھ شہری مزدوریا دیہاتی کسان ہواکرتا تھا، اور یہی زبان، ادب ، شعر و محاورے سے اس کا پہلا اور براہ راست واسطہ ہوا کرتا تھا۔ اس لئے وہ اس سے بے حد محظوظ ہوتا اور واپس جاکر بھی اپنے دوست احباب میں ان ڈراموں کے مکالمے دہراتا رہتا۔
جب کہانیوں کا کال پڑا تو آغا نے شکسپیر کے ڈراموں کی کہانیوں پر تصرف کیا اور ان کے مرکزی خیال کے گرد اپنی کہانیاں لکھنی شروع کیں، اور خوب لکھیں۔ ان میں ان کا لکھا کھیل “شہید ناز” ہے جس کا مرکزی خیال شکسپئیر کے ڈرامہ “میژر فار میژر” سے لیا گیا تھا۔ ان کا ایک اور سٹیج ڈرامہ “شہید ہوس” شکسپیئر کے کھیل “کنگ جون” کی کہانی کے تصرف کا نتیجہ تھا۔
لیکن ان کی لکھی ہوئی تمام کہانیوں میں سٹیج پرجس کھیل کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ “یہودی کی لڑکی” نامی ڈارمہ تھا۔ یہ ڈرامہ ۱۹۱۳ میں شائع ہوا تھا۔ یہ کہانی اردو اور دیگر زبانوں کے تھیٹر کی کامیابی کا ایک معیاربن کررہ گیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اچھی – کامیاب – کہانیوں کی متلاشی بھارتی فلمم انڈسٹری کی سوئی بھی ان کی اسی کہانی پر جیسے آکر رک گئی ہو۔ ۱۹۳۳ سے ۱۹۵۸ تک آغا حشرکاشمیری کی لکھی اس کہانی پر بے شمار فلمیں بنائی گئیں۔ اس کہانی پر، بھارتی فلم نگری کے اس قدیم زمانہ میں بھی فلمیں بنیں جب فلمیں ابھی آواز کے بغیر ہی بنائی جاتی تھیں۔ اور اس زمانہ میں بھی اس کہانی پر لوگوں کی بار بار نظریں پڑیں، جب فلموں میں آواز کا فیتہ چل پڑا۔
بیمل رائے نے بھی فلم بنائی جس میں دلیپ کمار، مینا کماری اور سہراب مودی نے اداکاری کی۔ اس کے بعد بھی آغا حشر نے کئی کامیاب تھیٹر پیش کئے لیکن جس دوسری بڑی کہانی کو اردو ڈرامہ میں مقام حاصل ہوا اس کا نام تھا “آنکھ کا نشہ۔” پھر انہوں نے فارسی کی ایک کلاسیکی کہانی “رستم سہراب” کو اردو میں پیش کر کے بڑی شہرت حاصل کی۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی مشہوراور کامیاب کہانیاں لکھیں جو شکسپیر کی کہانیوں سے ماخوذ تھیں۔
ان کے کھیل “رستم سہراب” کو بھی مثالی شہرت اور مقبولیت ملی۔ اس وقت کی تکنیک کے مطابق اور سٹیج کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے شیکسپیر جونئی نئی باتیں سٹیج پر آزماتے اور پیش کرتے تھے وہ بھی ان کے پیش کش کے انفرادی انداز کا نمونہ بن گئی۔ رستم سہراب میں جب ایک اداکار کو تلوار سے ہلاک کیا جاتا ۔۔۔ تو پہلے تو وہ بڑی دیر تک اسی زخمی حالت میں اپنے مکالمے مکمل کرتا جس میں سیچویشین کی مناسبت سے متعدد اشعاراورمحاورے بھی شامل ہوتے تھے، پھروہ سٹیج پر گر کر مر جانے کی شاندار اداکاری کرتا تو سارا ہال تماشائیوں کی تالیوں اور داد تحسین سے گونج اٹھتا۔ ایسے میں وہ اداکار اٹھ کر کھڑا ہوتا ۔ جھک کر تماشائیوں کا شکریہ ادا کرتا اور پھر دونوں ڈرامے کے اس ٹکڑے کو دوبارہ پیش کرتے۔ دوبارہ لڑتے، دوبارہ تلوار کے وار کا شکار ہوتے اور ایک بار پھر اشعار اور محاوروں سے بھرپور مکالمے سنا کر گرتے اور “دوبارہ سے ہلاک” ہوجاتے۔
سٹیج ڈراموں اور فلموں میں “ایکشین ری پلے” کی سب سے قدیم اور انتہائی کامیاب مثال یہی ملتی ہے۔
(جاری ہے)