اسلام آباد : وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ مالی سال کے جائزہ پر مبنی اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق معیشت کے تمام اہم شعبے وسیع مارجن سے اپنے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہے، صنعت کو نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ یہ زراعت اور خدمات کے مقابلے میں تقریباً 3 فیصد سکڑ گئی۔ صنعتی شعبہ کا حصہ مجموعی ملکی پیداوار میں ایک سال پہلے کے 19.1 فیصد سے 18.5 فیصد تک سکڑ گیا۔اس کے برعکس جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22.6 فیصد سے تھوڑا سا بڑھ کر 22.9 فیصد ہو گیا۔اسی طرح معیشت میں شراکت کے لحاظ سے سب سے بڑے شعبے خدمات کا جی ڈی پی میں حصہ 58.3 فیصد سے بڑھ کر 58.6 فیصد ہو گیا۔ پاکستان کے اقتصادی سروے نے کہا کہ تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے گزشتہ سال 4.27 فیصد کی نمو کے مقابلے میں رواں مالی سال کے دوران زرعی پیداوار میں معمولی 1.55 فیصد اضافہ ہوا،جس کے نتیجے میں تمام ضروری اشیا خورونوش کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔زرعی شعبے میں ہونے والے کل نقصان کا تخمینہ تقریباً 8 کھرب روپے ہے۔ سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ نومبر سے اپریل تک رہنے والے ربیع کا سیزن سندھ اور بلوچستان کے کسانوں کے لیے مشکل رہا، جو کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ زرعی شعبے کے حوالے سے سروے میں کہا کہ تباہ کن سیلاب نے خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچایا، جو گرمیوں میں بوئی گئی تھیں اور اہم فصلوں میں کمی 3.2 فیصد رہی۔ چاول کی پیداوار 93 لاکھ 20 ہزار ٹن سے کم ہو کر 7.32 73 لاکھ 20 ہزار ٹن رہ گئی، جو کہ ایک سال میں 21.5 فیصد کم ہے، اسی طرح کپاس کی پیداوار ایک سال قبل 83 لاکھ 30 ہزار گانٹھوں سے 41 فیصد گھٹ کر 49 لاکھ 10ہزار گانٹھوں پر آگئی۔تاہم گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے 8 کروڑ 86 لاکھ 50 ہزار ٹن کے مقابلے میں 9 کروڑ 11 لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی یعنی 2.8 فیصد بڑھ گئی، مکئی کی پیداوار گزشتہ سال کے 95 لاکھ 20 ہزار ٹن کے مقابلے میں 6.9 فیصد بڑھ کر ایک کروڑ ایک لاکھ 80 ہزار ٹن ہو گئی۔لائیو سٹاک کا شعبہ زراعت میں سب سے بڑا حصہ ڈالنے والے کے طور پر ابھرا، جس کی مالی سال 2023 کے دوران زرعی قدر 62.7 فیصد اور قومی جی ڈی پی کا 14.4 فیصد حصہ رہا۔ رواں مالی سال کے دوران مویشیوں کی مجموعی ویلیو ایڈیشن بڑھ کر 55 کھرب 93 ارب روپے ہو گئی یوں گزشتہ مالی سال کے 53 کھرب 90 ارب روپے سے 3.8 فیصد بڑھ گئی۔ صنعتی شعبہ چار اہم ذیلی شعبوں پر مشتمل ہے: کان کنی، مینوفیکچرنگ، بجلی گیس اور پانی کی فراہمی، اور تعمیرات، جو نقصان کے ساتھ2.94 فیصد تک محدود رہا۔زیادہ تر سکڑاؤ بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ میں 8 فیصد کمی کی وجہ سے آیا، صنعتی شعبے میں اس کا سب سے بڑا حصہ ہے، اس کے برعکس بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ نے گزشتہ دو سالوں میں 11 فیصد سے زیادہ شرح نمو دیکھی تھی۔تاہم، جن چار شعبوں میں ترقی ہوئی ان میں ملبوسات، چمڑے کی مصنوعات، فرنیچر، اور دیگر (جیسے فٹ بال) شامل ہیں۔کان کنی کا شعبہ جولائی تا مارچ کے دوران منفی 4.4 فیصد پر رہا جبکہ گزشتہ سال اس میں 7 فیصد کمی ہوئی تھی، اس شعبے کی ترقی میں ناکافی انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی کی کمی اور ناکافی مالی وسائل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ صنعتوں میں ملا جلا رجحان رہا۔30.7 فیصد خدمات اور کل جی ڈی پی کا 18 فیصد بننے والی ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ انڈسٹری میں فصلوں کی پیداوار میں 4.57 فیصد کی منفی نمو، بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ میں 8 فیصد کی کمی، اور درآمدات میں 12.68 فیصد کی منفی نمو کی وجہ سے 4.46 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اس کے برعکس، ٹرانسپورٹیشن اور سٹوریج، خدمات کے دوسرے بڑے شعبے میں 4.73 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ رہائش اور خوراک کی خدمات کی سرگرمیوں میں بھی 4.11 فیصد اضافہ ہوا۔
حکومت نے تمام معاشی شعبوں میں اہداف کے حصول میں ناکامی کے بہت سے جوز تراش رکھے ہیں لیکن یہ بات ہر خاص و عام کا معلوم ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہی معیشت کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اسی عدم استحکام کے باعث ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین شرح پر موجود ہے۔ کوئی معاشی ٹیم خواہ وہ کتنی ہی قابلیت کی حامل کیوں نہ ہو، اس قدر غیر یقینی سیاسی صورتحال میں معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ معیشت کی بہتری کے لئے سیاسی استحکام اولین شرط ہے۔